ایک اور دن کم ہوگیا – زرین بلوچ

305

“ایک اور دن کم ہوگیا”

زرین بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ : اردو کالم

 

ایک بلوچ ماں نے اپنے لاپتہ بیٹے کی راہ تکتے تکتے زندگی کہ کئی سال گذار دیئے، نا اُمیدی نے سب کی آنکھوں کو پتھرا دیا لیکن اس بوڑھی عورت کی آبدیدہ آنکھیں اب بھی روز ڈھلتے سورج کو دیکھ کر خوش ہوجاتی اور کہتی کہ “ایک دن اور کم ہوگیا”۔ ہمیں اکثر حیرانی اس بات پہ ہوتی کہ گُذرتے دن کہ ساتھ انکے اُس بیٹے کی جسکے زندہ رہنے کی اُمید بھی اِس بوڑھی عورت کہ سوا کسی کو نہیں،عمر کم ہورہی ہوگی، مگر پھر بھی یہ خاتون خوش ہے۔ کسی دن جب پوچھنے کا موقع ملا تو میں نے پوچھا اماں آپ کو ابھی تک اپنے بیٹے کا انتظار ہے؟ اماں فوراً بولی “آہ میرا بیٹا” کیا وہ اب زندہ ہوگا؟ آپ کس کے انتظار میں ہو؟ میں نہ پوچھا، جواب میں انہوں نہ کہا میں تو اُس قیامت کے انتظار میں ہوں جس روز اللّٰہ تعالیٰ ہر چیز کو حکم دیگا بولنے کا، تو میں پوچھونگی اس زمین سے کہ کہاں گیا میرا بیٹا؟ اس آسمان سے بھی اپنے بیٹے کا پوچھونگی میں۔

جانور بھی کسی شے کو کھا جائے تو ہڈیوں کےچند ٹکڑے چھوڑ جاتے ہیں تاکہ اس کے موت کا ثبوت رہ جائے، اُسکے پیچھے کوئی اُسکے انتظار میں نہ رہ جائے، مگر میرے بیٹے کے ہڈیاں تک مجھے نہ ملی، میں جواب مانگوں گی اس زمین سے، اس قدرت سے، اپنے رب سے، مجھے بس قیامت کا انتظار ہے، اب بس قیامت کا۔

اس سر زمین ءِ بلوچستان پہ بسنے والے ہر دل کو اس غم نہ گھیرا ہے، وہ غم جسے مایوسی کی ہوا بھی ٹھنڈا نہ کرپائے، یہ غم ہے اپنوں کے لاپتہ ہونے کا، یہ غم ہے ان لوگوں کیلئے جنہیں مُردہ کہوں تو دل پھٹ جاتا ہے اور اگر زندہ کہوں تو زندگی رُک جاتی ہے، یہ اپنے انتظار میں تمہیں مرنے نہیں چھوڑتے اور اپنے جدائی کے غم سے تمہیں زندہ رہنے نہیں چھوڑتے، ایک عرصے سے ہزاروں لوگ اس طرح لاپتہ ہوتے گئے کہ اب انتظار اور صبر جیسے الفاظ بھی تسلی کے کام نہیں آتے۔

سفر بلوچ کی بیوی انتظار کرتے کرتے موت کے آغوش میں سو گئی، غفور مینگل کی ماں انتظار کرتے کرتے اندھی ہوگئی، باپ نے بھی موت کو قبول کرلیا، ڈاکٹر دین محمد کی بیٹی مہلب اور سمی نے بچپن اپنا روڈوں پہ گذار لیا، شبانہ مجید نے آج تک اپنے بھائی کو ڈھونڈنے کی آس نہیں کھوئی، حمیدہ کے الفاظ اب بھی اتنے ہی درد بھرے ہیں کہ آنکھیں نم کردیں، سیما نے بھی اب تک لکمیر کے تصویر کو ہاتھ میں سنبھالا ہوا ہے، زاہد کا بیٹا چند ٹوٹے الفاظ کو جوڑ کر اپنے والد کا پوچھ رہا ہے، ماہرنگ کی آبدیدہ آنکھیں سوال کر رہی ہیں کہ کیا میرا بابا نصیر کیا کبھی نہیں آئے گا؟ حسام کے الفاظ پہلے ہی جس زندان کے خونی شب کو بیان کر چُکے تھے، وہ اب انہیں راتوں کو بسر کر رہا ہے، عزت جس نے لکمیر کے بغیر خود کو نا مکمل کہا تھا آج مکمل تو ہے مگر زندان میں۔

لاپتہ لوگوں سے لاکھوں کہانیاں، ہزاروں درد وابستہ ہیں، نہ کسی کے آنسو اس درد کو بیان کر پایئنگے، نا کسی کے الفاظ یہ داستان لکھ پایئنگے، ہر دن ہر دل ان غموں سے وابستہ ہے، ان دلوں سے بس ایک آواز آتی ہے زندگی”جو بے رونق سی ہے اب موت کی تمنا بھی نہیں کرتی، امُید نے بھی واسطے چھوڑ دیا، مگر انتظار اب بھی باقی ہے، کہ کوئی لوٹ آئے نہ آئے، آزادی کی صبح روشنی لے آئے گی، سب کی زندگیوں میں۔