بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ترجمان گہرام بلوچ نے انتخابات کے حوالے سے کہا کہ انتخابات میں حصہ لینا پاکستانی قبضے کو قبول کرنے کے مترادف ہے۔ بلوچستان پر حکومت براہ راست فوج چلاتاہے اوردنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے پاکستان چند ضمیر فروشوں کو بلوچ قوم کے نمائندے کے طورپر دنیاکے سامنے لانے کی کوشش کرتاہے اور ان لوگوں کا کام بلوچ قومی نمائندگی نہیں بلکہ بلوچ قومی نسل کشی،استحصالی منصوبوں اورغلامی کے حکم ناموں کا تصدیق کرنا ہے لیکن بلوچ قوم انہیں نہ اپنا نمائندہ تسلیم کرتاہے اورنہ آئندہ انہیں تسلیم کرے گا۔ یہی وہ بنیادی سبب ہے کہ بلوچ قوم نے گزشتہ انتخابات کا مکمل بائیکاٹ کیااور آنے والے انتخابات کیلئے بھی بلوچ قوم نے اسی طرح کی تیاری کی ہے۔بلوچ قوم کسی بھی سطح پر کسی بھی قوت کو قابض کے انتخابی ڈرامے میں حصے داری اورانتخابی ڈھکوسلے کی اجازت نہیں دے گا۔
گہرام بلوچ نے کہا کہ 2013 کے نام نہادانتخابات میں مکمل ناکامی کے بعد آئی ایس آئی نے اپنے چند ایجنٹوں کو اکھٹا کرکے نام نہاد حکومت تشکیل دی اور انہی کے ذریعے بلوچ نسل کشی میں تیزی لائی۔ اس مرتبہ بھی یہی عمل دہرایا جائے گا۔ ایک دفعہ پھر اپیکس کمیٹی اور نیشنل ایکشن پلان کے نام پر بلوچ قوم کے قتل عام کے پروانوں پر دستخط کئے جائیں گے اورانہی کے ذریعے سی پیک سمیت مختلف استحصالی منصوبوں کی منظوری اورقومی غلامی کوبرقراررکھنے کے پروگراموں کے اجازت ناموں پر دستخط لئے جائیں گے ۔
گزشتہ حکومتوں میں ہزاروں افرادلاپتہ اور مسخ شدہ لاشیں اور اجتماعی قبروں کی دریافت سے واضح ہوا کہ ہر گزرتے دن اور نئی حکومت کے ساتھ بلوچستان میں مظالم میں شدت لائی جاتی ہے۔ جنرل مشرف نے اغوا کا سلسلہ شروع کیا اور زرداری اور اسلم رئیسانی نے مسخ شدہ لاشوں کا۔ نواز شریف اور ڈاکٹر مالک کے دور میں اجتماعی قبریں برآمد ہوئیں ،آپریشن میں تیزی لائی گئی، کئی گاؤں اور بستیاں صفحہ ہستی سے مٹائی گئیں۔ ہزاروں خاندان بے گھر کر دیئے گئے۔ خصوصا چین پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) معاہدے کے بعد اس منصوبے کی روٹ پر آنے والی آبادی پر قیامت برپاکی گئی۔اس منصوبے کے تحت بننے والی سڑک اور لنک روڈ کے آس پاس رہنے والی تما م آبادیوں کو فوجی آپریشن کے ذریعے نقل مکانی پر مجبور کیا گیا جو آج دوسرے علاقوں میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
ترجمان نے کہا کہ گزشتہ ناکامی کو دیکھ کر پاکستانی فورسز بندوق کی نوک پر لوگوں کو ووٹ کاسٹ کرنے پر مجبور کریں گے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ بائیکاٹ یقینی ہے۔ اس بارے میں نام نہاد وزیر داخلہ کا انتخابات میں تاخیر کی درخواست کا مقصد صرف مزید فورسز لانے کیلئے وقت مانگنا ہے۔ گوکہ ہر پانچ کلو میٹر پر ایک چیک پوسٹ اور کئی کیمپ پہلے ہی سے قائم ہیں مگر عوام کو زبردستی گھروں سے نکالنے مزید فوجیوں کی تعیناتی کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ آنے والی انتخابات میں فوج کی موجودگی میں پبلک سیکٹر سے ملازمین پر بھی دباؤ ڈالا جائے گا کہ وہ پولنگ اسٹیشنوں کا چارج سنبھالیں۔ اس لئے ہم سب سے اپیل کرتے ہیں کہ ان انتخابات کا حصہ بننے سے اجتناب کریں اور قابض فوج اور اس کے ہمنواؤں سے دور رہیں۔ وہ ہمارے ٹارگٹ پر ہوں گے۔
گہرام بلوچ نے مزید کہا کہ ستر سال کی غلامی اور کالونیل دور میں بلوچ قومی شناخت، ثقافت، زبان اور رسم و روایات داؤ پر لگے ہوئے ہیں۔ بلوچ قوم پر اس طرح کا کڑی وقت شاید ہی پہلے آیا ہو۔ اس لئے ایک دفعہ پھر نام نہاد انتخابی ڈرامے اورڈھکوسلے سے بائیکاٹ کا وقت آچکا ہے۔ امید ہے بلوچ قوم پہلے کی طرح ان انتخابات کا بائیکاٹ کرکے بلوچ آزادی پسندوں کا ساتھ دیکر آزادی کے حق میں ووٹ میں دیں گے جو انتخابات کا بائیکاٹ ہی سے ممکن ہے۔ آج پانچ سال بعد منتخب نمائندے اور ان کے مخالفین بھی خود اعتراف کررہے ہیں کہ گزشتہ انتخابات میں بلوچ قوم نے بائیکاٹ کیا تھا اور ٹرن آؤٹ صفر کے برابر تھی۔ اس دفعہ بھی نتیجہ مختلف نہیں ہوگا۔