ایران کے پاسدارانِ انقلاب کے ساتھ تعلقات ,امریکہ نے 6 افراد و 3 کمپنیوں پر پابندی عائد کردی

240

امریکہ کا کہنا ہے کہ اس نے چھ ایرانی افراد اور تین کمپنیوں پر ایران کے پاسدارانِ انقلاب کے ساتھ تعلقات کی بنا پر پابندیاں عائد کر دی ہیں۔

امریکی وزیرِ خزانہ سٹیو مونچن کا کہنا ہے کہ ان پابندیوں کے ذریعے اُن لوگوں کو نشانہ بنایا گیا ہے جنھوں نے ایران کی منفی سرگرمیوں کے لیے لاکھوں ڈالر خرچ کیے۔

اگرچہ امریکی محکمۂ خزانہ نے پابندی عائد کی جانے والی شخصیات کا نام ظاہر نہیں کیا تاہم اس کا یہ کہنا ہے کہ ان تمام کا تعلق ایران سے ہے۔

اب کسی بھی امریکی کمپنی یا فرد کو ان کے ساتھ کام کرنے کی اجازت نہ ہوگی۔ یہ اقدام متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے ساتھ مل کر کیا گیا ہے۔

امریکی وزیرِ خزانہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایرانی حکومت اور اس کے مرکزی بینک نے یو اے ای میں اداروں تک رسائی حاصل کرنے کے لیے امریکی ڈالر حاصل کیے جس میں پاسدارانِ انقلاب کی تباہ کن سرگرمیوں کے لیے سرمایہ کاری اور اپنے علاقائی پراکسی گروہوں کو پیسہ اور اسلحہ فراہم کرنا تھا۔

سٹیو مونچن کا مزید کہنا تھا ’ہم پاسدارانِ انقلاب کی آمدنی کے تمام ذرائع کو ختم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔‘

پاسداران انقلاب کیا ہے؟

خیال رہے کہ سنہ 1979 میں ایرانی انقلاب کے بعد ملک میں پاسدارانِ انقلاب کا قیام عمل میں لایا گیا تھا جس کا مقصد ایران کے اسلامی نظام کی حفاظت کرنا تھا۔

ایران کے پاسدارانِ انقلاب کا شمار ملک کی بڑی فوجی سیاسی اور اقتصادی قوت میں ہوتا ہے۔

ایران کے انتظامی ڈھانچے کے مطابق عام حالات میں ‘اندرونی سلامتی کے خطرے’ سے نمٹنے کی ذمہ داری پولیس اور انٹیلیجنس پر ہوتی ہے لیکن صورت حال کے سنگین رخ اختیار کرنے پر اس سے نمٹنے کی ذمہ داری پاسدارانِ انقلاب کو دی جاتی ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پاسدارانِ انقلاب کو ’بد عنوان دہشت گرد ملیشیا‘ قرار دیتے ہیں۔ انھوں نے گذشتہ سال اکتوبر میں پاسدارانِ انقلاب پر پابندیاں عائد کرنے کا عندیہ دیا تھا۔

امریکی صدر نے اکتوبر میں کانگریس کے لیے اس بات کی از سرِ نو تصدیق کرنے سے انکار دیا تھا کہ ایران معاہدے کی پاسداری کر رہا ہے۔ انھوں نے الزام لگایا کہ تہران معاہدے کی ‘روح کے مطابق نہیں چل رہا۔’

خیال رہے کہ امریکی کی جانب سے ایران کے پاسدارانِ انقلاب پر عائد کی جانے والی نئی پابندیاں ڈونلڈ ٹرمپ کے اس اعلان کے دو روز بعد سامنے آئی ہیں۔

امریکی صدر نے نو مئی کو اعلان کیا تھا کہ ان کا ملک سنہ 2015 میں ہونے والے ایرانی جوہری معاہدے سے نکل رہا ہے اور اب ایران کے خلاف دوبارہ سخت پابندیاں عائد کی جائیں گی۔

بدھ کو وائٹ ہاؤس میں ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے خصوصی خطاب میں کہا کہ اس جوہری معاہدے کا مقصد امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو محفوظ رکھنا تھا لیکن اس معاہدے نے ایران کو یورینئیم کی افزودگی جاری رکھنے کی اجازت دے دی۔

امریکی صدر نے کہا کہ ‘تباہ کن’ ایران جوہری معاہدہ امریکہ کے لیے باعث ‘شرمندگی’ ہے۔

امریکہ کے اس فیصلے کے بعد ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای نے ڈونلڈ ٹرمپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ انھوں نے جوہری معاہدے سے نکلنے کا فیصلہ کر کے ‘غلطی’ کر دی ہے۔

آیت اللہ علی خامنہ ای کا کہنا تھا ‘میں پہلے دن سے کہہ رہا ہوں، امریکہ پر بھروسہ نہ کرو۔’

انھوں نے ایرانی حکومت سے کہا کہ وہ اس معاہدے کو جاری رکھنے کے لیے راضی ہونے سے قبل یورپی طاقتوں سے ضمانت لیں۔

خیال رہے کہ 2015 میں ہونے والا یہ جوہری معاہدہ ایران اور اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے پانچ مستقل رکن ممالک امریکہ، برطانیہ، فرانس، چین اور روس سمیت جرمنی کے درمیان ہوا تھا۔