افغان فورسز کی صلاحیت میں تیزی سے کمی آئی ہے :رپورٹ

129

امریکی سرکاری تنظیم کا کہنا ہے کہ افغانستان میں گذشتہ 12 ماہ کے دوران ہلاکتوں کی شرح میں اضافے اور فوجیوں کے بھگوڑے ہونے کی وجہ سے افغان سکیورٹی فورسز کی صلاحیت میں تیزی سے کمی آئی ہے۔

ایک نئی رپورٹ کے مطابق سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کی تعداد 10 فیصد کمی کے بعد تین لاکھ تک رہ گئی ہے۔

یہ معلومات ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہیں جب گذشتہ روز ہی افغانستان میں ہونے والے حملوں میں 40 افراد مارے گئے۔

دوسری جانب افغان وزارت دفاع نے امریکی سرکاری تنظیم کی اس رپورٹ کو مسترد کر دیا ہے۔

افغانستان کی وزارت دفاع کے نائب ترجمان محمد ردمانیش نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ فوج کے پاس ملک میں موجود شدت پسندوں کا مقابلہ کرنے کے لیے کافی اہلکار موجود ہیں۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بہت سے علاقے شدت پسند گروہوں کے زیر قبضہ ہیں۔

یہ رپورٹ سیگر (سپیشل انسپیکٹر جنرل فار افغانستان ریکنسٹرکشن) نامی تنظیم نے شائع کی ہے۔

اس میں کہا گیا ہے کہ 2015 میں جب اس تنظیم نے اعداد و شمار اکھٹے کرنا شروع کیے اس کے بعد سے اب تک طالبان اور دیگر شدت پسند گروہوں کا کنٹرول یا اثر ملک کے دیگر علاقوں تک پھیل گیا ہے۔

بی بی سی کے ایتھیراجن انبراسن کا کہنا ہے کہ طالبان اور دیگر شدت پسند افغان فورسز پر کاری ضرب لگا رہے ہیں اور بظاہر سیکیورٹی ایجنسیاں دارالحکومت کابل جیسے محفوظ سمجھے جانے والے علاقوں میں بھی خودکش حملوں کو روکنے میں ناکام رہی ہیں۔

تنظیم سگر کے سربراہ جان سوپکو نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا ہے کہ ’افغان فورسز میں اضافہ امریکہ اور ہمارے اتحادیوں کی اولین ترجیح ہے، اس لیے افغان فورس کی صلاحیت میں کمی پریشان کن ہے۔‘

رواں سال کے آغاز میں بی بی سی کی ایک تحقیق سے معلوم ہوا تھا کہ شدت پسند ملک کے تین چوتھائی حصے میں کھلے عام سرگرم ہیں۔ تاہم افغان حکومت کا دعویٰ ہے کہ زیادہ تر علاقے اس کے کنٹرول میں ہے۔