دلجان اب نہیں رہا – چاکر زہری

345

دلجان اب نہیں رہا

تحریر:چاکر زھری

دی بلوچستان پوسٹ : کالم 

جب فیس بک کھولا تو میرے بھائی دلجان کا نام نظروں کے سامنے سے گذرا، جس کو دیکھ کر کچھ دکھ سا ہوا، پھر دل چاہا کہ محوِغم رہنے سے بہتر ہے کہ کچھ نوشتہ کروں۔ لکھنے کا آغاز ان الفاظ سے کروں گا، جن الفاظ کو ایک صاحب نے بڑے درد بھرے طریقے سے پوسٹ کیا تھا کہ “ خضدار! اب کوئی دلجان نہیں آئے گا ” پڑھ کر ایسا لگا، جیسے کہ اب خضدار کے تمام مردوں نے چوڑیاں پہن لیں ہیں۔ تمام بزرگوں نے چادریں اوڑھ لیں ہیں، تمام پیدا ہونے والے بچے زیر ِ خنجر ِ فرعون ہوئے ۔ یا پھر قوم لوط کے مانند سب زندہ درگور ہوئے۔

گزان میں پیدا ہونے والے دلجان کی زندگی کو اگر دیکھیں تو وہ ہماری طرح کا ایک انسان تھا، ہماری طرح اس کے ماں باپ بہن بھاٸی بیوی اور بچے تھے، مگر ان سب کو اور اپنی زندگی کی تمام آساٸش و سہولیات کو چھوڑ کر پہاڑوں کی تکلیف دہ زندگی کو اپناتا ہے آخر کیوں؟ کیوں بھوک و پیاس برداشت کرتا ہے؟ کیوں شور و پارود اور بولان کے سنگلاخ پہاڑوں کو اپنا مسکن بناتا ہے؟ اس سے تو ہم سب بخوبی واقف ہیں کہ دلجان کا تعلق ایک قوم سے تھا اور قوم ایک دو نہیں بلکہ ہزاروں افراد کے مرنے سے بھی ختم نہیں ہوتے، مگر اسوقت جب وہ یزیدِ وقت کے آگے سر ِ تسلیم خم کر لیں، تب دلجان جیسے فرزندوں کی اہمیت اور ضرورت زیادہ ہوجاتی ہے۔

نوروز خان، سفر خان، بٹے خان، بھاول خان، مستی خان، جام جمال خان جیسوں کی قربانی کی بدولت آج پھر ایک نوروز خان پیدا ہوا، دلجان کی صورت میں جس نے دشمن کو یہ باور کرایا کہ اب بھی یہ وطن لاوارث و بے فرزند نہیں، اب بھی اس دھرتی میں دلجان جیسے نڈر و بہادر سپوت رہتے ہیں۔ جب قوموں کے بہادر بیٹے اپنا لہو دے کر اپنے وطن کی مٹی میں آزادی کا بیج بوتے ہیں۔ یہ بات سچ ہے کہ وہ تو اس بیج سے اگی ہوٸی آزادی کے درخت کو نہیں دیکھتے، مگر آنی والی نسلیں اس درخت سے فاٸدہ اٹھاتے ہیں، اس کے میوہ لکڑی سایہ سے راحت حاصل کرتے ہیں۔ اسی طرح دلجان نے اپنے سرخ لہو سے آزادی کا بیج بوتے ہوئے، آزادی کے مکان کی بنیاد ڈالی ہے، جس کی بدولت یہ قوم اور اس قوم کے افراد ضرور ایک نہ ایک دن راحت حاصل کریں گے۔

دوسری بات یہ کہ کیا یہ صرف دلجان کی ذمہ داری تھی؟ نہیں! بلکہ اس دھرتی پر رہنے والے ہر فرزند کی یہ قومی ذمہ داری ہیکہ وہ اس فرض کو نبھائے، شہداء کے قربانی کو یاد کرے، شہدا کے گِرے ہوٸی بندوق کو اٹھائیں۔

میرے بھاٸیوں! میرے ہمسفروں! میرے قوم کے لوگوں! دلجان ہم سے رخصت نہیں ہوئے، دلجان کی سوچ فکر ہمت حوصلہ اب بھی موجود ہے مگر وہ بس سوگئے، داستان کہتے کہتے ۔ دلجان کی سوچ فکر ارمان ِ آجوٸی کو آگے لے جانا، میری اور آپ کی ذمہ داری ہے اور اس ذمہ داری کو ہمیں، ہی نبھانا ہے، ہمیں ہی اس مشن کو آگے لے جانا ہے، ہمیں خواب ِ دلجان کی تعبیر کرنی ہے۔ دوستوں اب ہمیں اس خیال کو دل و دماغ سے نکالنا ہوگا کہ دلجان نہیں رہے۔ اب دلجان کی توفک (بندوق) کو مجھے اور آپ کو اٹھانا ہے، مجھے اور آپ کو دشمن کے خلاف مورچہ زن ہونا ہے، مجھے اور آپکو اپنے اس اشکبار مادرِ وطن کی آنکھوں کو صاف کرنا ہے۔ اب رونے کا زمانہ، وقت و مدت گذر گیا، اب اٹھ کھڑا ہونا ہے، اب لڑنا ہے، اب ڈرنا نہیں بلکہ مرنا ہے۔

دلجان ایک راہ رو نہیں بلکہ ایک رہنما تھا، جو زوہیب، خان محمد، مجید نثار، رسول بخش، سکندر، ہارون زھری، حافظ عبدالقادر، حاجی محمد رمضان، سمیع بلوچ، ڈاکٹر داؤد، امیر الملک، مقصود، سلیمان، یحیٰ نعیم جیسے شہداء کا وارث اور ان کے قدم پہ قدم رکھنے والا جانثار تھا۔

دلجان اس دھرتی کا دل اور جان تھا، میرے دوستو دلجان ایک نظریہ ایک فکر کی بنیاد ہے، جو آنے والی نسلوں کی رہنماٸی اور راہشونی کریگا۔ دلجان ایک جلتی شمع ہے، جو آٸندہ آنے والی نسل اور اس راستے کے مسافروں کیلئے روشنی اور درخشانی کا سبب بنے گا۔ آخر میں پھر مودبانہ انداز اور الفاظ میں اپنے قوم کے فرزندوں، ماوں اور بہنوں کو کہوں گا کہ اب مایوس نہیں ہونا ہے بلکہ اب آگے قدم بڑھانا ہے، اب ہر میدان، ہر جگہ اور ہر شعبہ ہائے زندگی کے افراد میں اس شعور کو اجاگر کرنا ہے کہ ہمارا منزل، ہمارا مقصد، ہماری پہچان، ایک ہے جو ہمارا دل و جان آزاد بلوچستان ہے۔