اگر شمالی وزیرستان میں جلسہ کر سکتے ہیں تو لاہور میں کیوں نہیں؟

218

پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے رہنماؤں نے کہا ہے کہ لاہور انتظامیہ کی جانب سے اجازت نہ ملنے کے باوجود وہ 22 اپریل کو لاہور کے موچی گیٹ پر جلسہ کریں گے۔

پی ٹی ایم کے رہنما محسن داوڑ نے اپنی ٹویٹ میں لاہور ڈپٹی کمشنر کی جانب سے ملنے والے نوٹس کی تصویر پوسٹ کی جس میں پی ٹی ایم کی جانب سے جلسے کے انعقاد کے لیے اجازت مانگی گئی تھی لیکن انتظامیہ نے ‘حالیہ سکیورٹی خدشات’ کی بنا پر اجازت نہیں دی۔

بی بی سی کے نامہ نگار عابد حسین سے بات کرتے ہوئے محسن داوڑ نے کہا کہ ‘ریلی بالکل ہوگی اور اسی مقام پر ہوگی جہاں کا اعلان کیا گیا تھا۔’

اس سوال پر کہ لاہور میں سکیورٹی خدشات کیا ہیں، تو محسن داوڑ نے کہا کہ انتظامیہ نے ان کی تنظیم سے شہر میں سکیورٹی خدشات کا ’بہانہ‘ بنایا ہے۔

‘لاہور میں تحریک لبیک نے کئی دن مظاہرے کیے اور اس کے علاوہ کالعدم تنظیمیں اپنے جلسے کھلے عام کرتی ہیں۔ ہم جو باتیں کرتے ہیں اس سے کچھ لوگ ڈسٹرب ہوتے ہیں تو شاید اسی لیے بہانہ بنایا جا رہا ہے سیکورٹی کا۔ اگر ہم شمالی وزیرستان میں جلسہ کر سکتے ہیں تو لاہور میں کیا مسئلہ ہے؟’

تنظیم کے ایک اور رہنما علی وزیر نے فیس بک پر جاری ویڈیو میں انتظامیہ سے اس فیصلے پر نظر ثانی کرنے اور لاہور کے عوام سے جلسے میں شرکت کرنے کی درخواست کی ہے۔

‘ہم ان غلط پالیسیوں کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں جن سے ملک اس نہج پر پہنچ چکا ہے لیکن ہماری فریاد کو نہیں سنا جا رہا ہے۔ ہم لاہور کے محب وطن لوگوں سے اس جلسے میں شرکت کی گزارش کرتے ہیں اور انتظامیہ سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اس فیصلے پر نظر ثانی کریں۔’

محسن داوڑ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے مزید کہا کہ اظہار رائے کی آزادی ملک کے آئین نے دی ہے اور اسے حاصل کرنا ان کا حق ہے۔

‘ہماری جد و جہد انھی آئینی اور قانونی حقوق کی جنگ ہے، ان حقوق کے لیے جو ہمیں اس ملک کے آئین نے ہمیں دیے ہیں اور ہم اسی کے لیے یہاں آئے ہیں۔’

واضح رہے کہ پی ٹی ایم کے مطابق یہ وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) کے عوام کے بنیادی حقوق کی آواز اٹھانے والی تنظیم ہے جس کی قیادت منظور پشتین کر رہے ہیں۔

جنوری میں نقیب محسود کے کراچی میں ماورائے عدالت قتل کے بعد سے ان کی تحریک نے اسلام آباد، کوئٹہ، شمالی وزیرستان اور پشاور سمیت کئی حصوں میں اپنی ریلیاں نکالی ہیں جہاں وہ فاٹا میں جبری گمشدگیوں اور دیگر بنیادی حقوق کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔

لیکن پشاور میں ہونے والی ریلی کے چند دن بعد راولپنڈی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے پی ٹی ایم کا نام لیے بغیر تنظیم پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘جب سے فاٹا میں امن آیا ہے لوگوں نے ایک اور تحریک شروع کر دی ہے اور باہر اور اندر سے کچھ لوگ پاکستان کی سالمیت کے درپے ہیں۔‘

یاد رہے کہ اسی ماہ انتہائی دائیں بازو کی مذہبی جماعت تحریک لبیک پاکستان نے لاہور میں داتا دربار کے مقام پر دس روز تک اپنا احتجاجی دھرنا منعقد کیا تھا جسے انھوں نے حکومت سے اپنے مطالبات کی منظوری تک جاری رکھنے کا اعلان کیا تھا۔

معاہدے کی نامنظوری پر جماعت نے لاہور میں جگہ جگہ پر رکاوٹیں کھڑی کی تھیں اور موٹروے کی طرف جانے والے راستے بھی بند کر دیے تھے جس سے شہریوں کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔