گوریلا جنگ کی اہمیت اور قومی تحریک آزادی تحریر: ٹِک تیر بلوچ

1102

گوریلا جنگ کی اہمیت اور قومی تحریک آزادی

تحریر: ٹِک تیر بلوچ

گوریلا جنگ اس وقت لڑی جاتی ہے، جب دشمن طاقت اور تعداد میں زیادہ ہوں اور اس کے وسائل بے اندازہ ہو۔ زمانہ قدیم میں ایک مرتبہ مرہٹوں سے جنگ میں حیدر علی نے ان کے لشکر پر شب خون مارا اور سامان رسد لے جانے والے کئی ہزار بیلوں پر قبضہ کر لیا۔ کچھ بیل ادھر ادھر سے مل گئے۔ حیدر علی کے حکم پر سپاہیوں نے دس ہزار بیلوں کے سینگوں پر چیتھڑے باندھے اور انہیں مٹی کے تیل میں بگھو دیا اور جب آدھی رات ہوئی تو ان سینگوں پر لپٹے کپڑوں پر آگ لگا دی اور بیلوں کو مرہٹہ سردار “ترک راؤ ” کے لشکر کی جانب ہانک دیا۔ مرہٹہ سپاہی آرام کی نیند سو رہے تھے۔ بیل ان کے خیموں میں گھس گئے۔ وہ بھگدڑ مچی کے خیمے جل اٹھے اور سواری کے گھوڑے رسی تڑا کر بھاگ گئے۔ اسی افراتفری میں حیدر علی نے حملہ کر دیا اور مرہٹوں کو عبرتناک شکست ہوئی۔ اس جنگ میں حیدر علی کے پاس چند ہزار سپاہی تھے، جب کے مرہٹوں کا لشکر ایک لاکھ سے متجاوز تھا۔ حیدر علی نے اپنی چھوٹی سی فوج لے کر زندگی بھر بڑی ہی کامیابی سے دشمنوں کا مقابلہ کیا۔ اس میں اس کی ذاتی ہمت و جرات کے ساتھ ساتھ اس کا طریق جنگ کا بھی دخل تھا، جسے “گوریلا جنگ “بھی کہا جاتا ہے۔

دوستوں حالیہ دور کے گوریلا جنگ و ماضی کے گوریلا جنگوں میں صرف جدید جنگی وسائل اور نئے ٹکنیک استعمال کرنے کا فرق ہے، مگر حالیہ دور میں زیاده طر گوریلا جنگجو آج بهی وہی ماضی کا طریقہ کار استعمال کرتے ہیں، جہاں چھاپہ مار دستے دشمن کی اہم چوکیوں پر اچانک حملہ کر کے انہیں پریشان کرتے ہیں۔

جدید دور کے گوریلا جنگ میں دشمن کے جاسوسوں کو ہدف (ٹارگٹ) بنانا، جس طرح دشمن کے خلاف گوریلا لشکر کی طاقت و کامرانی کی بنیاد ’’رازداری‘‘ ہے، اسی طرح گوریلا لشکر کے خلاف دشمن کے ہاتھ میں کامیابی کی کُنجی گوریلا لشکر کو بے بس و ناکام بنانے کا بڑا ذریعہ اس کا جاسوسی نیٹ ورکس (Intelligence network) ہیں، کیونکہ جاسوسی لشکر بھی گوریلا لشکر کی طرح زیر زمین و خفیہ طورپر کام کرنے والا لشکر ہے، گوریلا لشکر پر بھاری پڑنے اسے کمزور و نابود کرنے و جنگ جیتنے کیلئے دشمن ہمیشہ اپنے جاسوسی نیٹ ورک کو مضبوط کرکے پھیلا دیتا ہے، دشمن کے جاسوس گوریلا لشکر کے خلاف اس کیلئے آنکھ ، کان، ناک کا کام کرتے ہیں۔ دشمن کے جاسوس شہروں میں ہر ہوٹل ، گلی بازار، چوک، لوگوں کی عام گذر گاہوں و بیٹھنے کے مقامات پر، ہر دیہات، پہاڑ، ندی وجنگل میں سوداگر، مزدور، دھوبی، حجام، پاگل، فقیر، کپڑے برتن و چوڑیاں بیچنے والوں و تبلیغیوں ودیگرکے بھیس میں گھوم پھر کر گوریلا لشکر کے رہنماؤں و سرمچاروں کا کھوج لگاتے ہیں ۔ ان کے بارے میں معلومات اکھٹا (Collect and confirm ) کرتے ہیں، جاسوسوں کی ان حاصل کردہ پختہ معلومات کی بنیاد پر دشمن گوریلا لشکر کے رہنماؤں و سرمچاروں کے خلاف کارروائی کرتا ہے۔

بلوچ سرمچار جنگ میں دشمن کیلئے جاسوسوں کی اہمیت و کردار سے اچھی طرح واقف ہیں، اس لیئے وہ دشمن کے جاسوسوں کو ہدف بنا کر مارتے ہیں۔ جس سے دشمن کو بہت تکلیف ہوتی ہے، دشمن کی کامیابیوں کا راستہ روکنے، اسے ناکام بنانے و اس کی کمر توڑنے کے لیئے ضروری ہے کہ گوریلہ لشکر اس کے جاسوسی جال کو کمزور و نابود کرے، دشمن مقامی آبادی میں سے لالچی و مردہ ضمیر افراد میں سے جاسوس بھرتی کرتا ہے لیکن بڑے عہدوں کیلئے ان پر زیادہ اعتبار بھی نہیں کرتا، آج کل جاسوسی کیلئے آدمی کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی بہت کار آمد ہوتا ہے، جس طرح امریکہ ونیٹو کے افواج القاعدہ داعش و طالبان کے خلاف طرح طرح کے جاسوسی جہاز، سیٹلائٹس ، ڈرون ودیگر جدید (Modern) ٹیکنالوجی و آلات سے کام لیتے ہیں، یہ تو بلوچ قوم و گوریلا سرمچاروں کی خوش قسمتی ہے کہ ہمارے دشمن کے پاس جاسوسی کے جدید ٹیکنالوجی نہیں ہیں، اگر کسی اور سے خیرات یا کاسہ لیسی کے بدلے میں اسے جدید ٹیکنالوجی ہاتھ آ بھی جائے تب بھی بلوچستان کی اس وسیع (Vast) و طویل( Long) گلزمین کی پہاڑوں، ندیوں وجنگلوں میں بلوچ سرمچاروں کے خلاف اس کی کامیابی کا تناسب کم مگر اس کا نقصان و اخراجات زیادہ ہونگے۔ ضرورت محض اس امر کی ہے کہ بلوچ گوریلا لشکروں کے رہنما و سرمچار اپنے آپ کو ’’ راز داری ‘‘ ودیگر گوریلا اصولوں (Principles) کے پابند بنائیں دشمن کیلئے نرم ہڈی و آسان شکار نہ بنیں ۔

۔نوآبادکاروں( SETTLERS) کو ملک سے نکالنا

اگر ہم دنیا کی تاریخ پر نظر ڈال کر دیکھیں تو یہی نظرآتا ہے کہ جب بھی کسی زور آور و ظالم قوم نے کسی کمزور قوم کے وطن پر قبضہ کیا ہے، اس کی آزادی چھین لی ہے، تو اس کا سب سے بڑا مقصد زیر دست قوم کے مال و املاک، وسائل اور زیرزمین دفن قدرتی معدنی دولت کو لوٹنا اور اس لوٹ کی دولت سے اپنی قوم کو ترقی دینا و آسائشیں پہنچانا رہا ہے، قابض نے اپنے قبضہ و استحصال کو طول دینے و مضبوط بنانے کیلئے سب سے پہلے طاقت و تشدد سے کام لیا ہے۔ اس کی دوسری کوشش یہ رہی ہے کہ وہ زیردست قوم کے لوگوں کو باور کرائے کہ وہ ایک بد، بدکار، جاہل، بے وقوف، پسماندہ وخدا کی ماری ہوئی قوم ہیں۔

قابضوں نے اپنے دیئے ہوئے تعلیم کے ذریعے مقامی لوگوں کو ان کی رواج ، ثقافت ، زبان و تاریخ سے بیگانہ کیاہے۔ انہوں نے زیردست قوم کے لوگوں کے دل میں اس بات کو بٹھانے کی کوشش کی ہے کہ وہ یعنی مقامی لوگ ترقی و تہذیب و آسائشوں کیلئے قابض کے ثقافت ورواج کی نقل کریں، قابض کو اپنا خیر خواہ مانیں، اس کے ہاتھ مضبوط کریں تاکہ وہ قابض کی مہربانی و مددسے ترقی و آسائشوں کی منزل پالیں، اپنے یہ دونوں کام کرنے کیلئے قابض اپنے ساتھ نو آبادکاروں کی ایک بڑی تعداد لا کر زیردست قوم کے وطن میں آباد کرتے رہے ہیں، آباد کار فوج ، پولیس ودیگر عسکری اداروں و تعلیم سمیت زندگی کے ہر شعبے میں خدمات و سرکاری نوکریاں اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں، مطلب یہ کہ قابض کے قبضے کو مضبوط کرنا و استحصال میں حصہ لینا آبادکاروں کا بنیادی کام رہا ہے۔ وہ قابض کے قبضہ و استحصال میں شریک و اس کے بڑے وفادار وطرفدار رہے ہیں۔ اس لیئے وہ محکوم قوم کے لوگوں کی نظر میں قابض کے قبضہ و استحصال کی علامات میں سے ایک بڑی علامت رہے ہیں۔

یہ تو ظاہر سی بات ہے کہ قومی آزادی کیلئے کمر بستہ جنگجو دشمن کی قبضہ و استحصال کے ہر وسیلہ و علامت کو مٹانے و ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں نو آباد کاروں کی دشمن کے قبضہ و استحصال کی بڑی نمایاں علامتوں میں سے ایک علامت ہونے کی وجہ سے سرمچار ہمیشہ انہیں اپنے کارروائیوں کا ہدف بنانے اور اپنے وطن سے نکالنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ آج بلوچستان میں بھی یہی نظر آتا ہے کہ پنجابی ودیگر آبادکار بلوچ قومی تحریک آزادی کے خلاف قابض پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں، دشمن کی پولیس، جاسوسی ودیگر عسکری اداروں کے اہلکار، تعلیمی درس گاہوں کے اساتذہ ، جج و بڑے بڑے افسران زیادہ تر آبادکار ہیں، اس لیئے بلوچ سرمچاروں کی کاروائیوں کا ہدف بننے والوں میں آبادکار بھی شامل ہیں۔ آبادکاروں کے خلاف سرمچاروں کی کارروائیوں کو نسل پرستی کہنا غلط ہے۔ قومی آزادی کی جنگ میں یہ تو ایک فطری عمل ہے کہ آبادکاروں کو ہدف بنانے سے دشمن کو بہت تکلیف پہنچتا ہے، ہم دیکھتے ہیں کہ جب کوئی آبادکار مارا جاتا ہے تو قابض کی پوری سرکار ان کے لیڈر، سرکاری آفیسر اور ان کے مقامی کاسہ لیس شورو فریاد سے آسمان سر پر اٹھالیتے ہیں۔ یہ ایک سچی بات ہے کہ گوادر و دیگر بلوچ ساحلی علاقوں میں پنجابی و مہاجروں کو لا کر بسانے کا منصوبہ بلوچ سرمچاروں کی کارروائیوں کی وجہ سے کھٹائی میں پڑ گیا، ورنہ پاکستانی پارلیمان میں جانے کے شوقین قوم پرستوں نے تو گوادر سمیت ساحلی علاقوں کا ایک ایک انچ زمین فروخت کرنے کیلئے اسٹیٹ ایجنسیاں کھولے بیٹھے تھے۔