نیمرغ کا کوہِ نورد ، حفیظ عرف چاکر – کوہ دل بلوچ

494

نیمرغ کا کوہِ نورد
حفیظ عرف چاکر

کوہ دل بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ : کالم 

میرے وطن میں جو بھی کٹھن وقت مجھ پر گذری ہے، اس کا بنیادی مسئلہ میں نے غلامی کو تصور کیا ہے. کیونکہ وہ وقت کب کا گذر چکا کہ غلامی کی غلاظت میں مبتلا ہوکر کسی ناسور مرض کا شکار بن کر مر جانے یا تکلیف میں گِھرا ہوا خود کو دیکھ کر یہ سمجھا جاتا، کہ یہ خدائی قہر ہے جو ہمارے اعمال کے پاداش میں ہمیں خدا نے ہم پر نازل کیا ہے۔
ایسا ہی ایک کٹھن مسئلہ، جو غلامی کے گود میں پروردہ مسائل میں سے ایک ہے، جس کے جڑوں کو میں نے تب سمجھا جب میں نے غلامی کو محسوس کرنے والے کارواں سے وابستگی کا پختہ ارادہ کرلیا۔

آج میری قلم سے جو تجسس بھرے الفاظ اتریں گی، ان میں میری حب الوطنی کم جبکہ اُس وطن دوست سنگت کی محنت و خلوص کا تذکرہ زیادہ ہوگا، جو بلوچستان کا کوہِ نوردی تھا اور آج وہ سنگت ہمارے دلوں کے چٹانوں کے جنگلوں میں دیوانہ نوردی بن کر نظر آرہا ہے۔

بہت کم ایسے لوگ ہوتے ہیں جو ہزاروں دلوں پر اپنا نشیمن بناکر پھر ہمیشہ کیلئے اس میں بس جاتے ہیں،ہمارا حفیظ بھی انہی لوگوں میں شمار ہوتا ہے، جنہوں نے دلوں پر راج کرنے کا ہنر سیکھا تھا۔

یہ دقیق مسئلہ حفیظ کو بھی گھیرے ہوئے تھا۔ یہ مسئلہ آج بھی اس وطن میں عروج پر ہے، وہ ہے تعلیمی سلسلے کیلئے گھر چھوڑ کر بڑے آبادیوں کا رُخ کرنا تاکہ علم کی جو تشنگی ہے، اس کو مٹا سکیں مگر علم کی پیاس کب لبوں سے اترتا ہے، علمی تشنہ لبی آخری سانسوں تک شدت سے رہتی ہے۔

میں آج تک اس بات میں اٹکا ہوا ہوں کہ لوگ اتنی دور علم کی پیاس بجھانے جاتے ہیں یا پیاس بڑھانے کیلئے، کیونکہ میں نے اس پیاس کو بجھتا ہوا کبھی نہیں دیکھا، ہاں اس میں شدت کا سماں ضرور محسوس کیا ہے، جس کا عکس حفیظ جیسے دوستوں کے نظریات کے گلشن میں کھلتی ہوئی پھول کے مانند دِکھتا ہے۔

حفیظ کی تعلیم حاصل کرنے کی جستجو کا مجھ جیسے ادنیٰ لکھاری میں ناپ تول کی میزان کہاں ہے کہ اُس کے اس لگن کا برابری سے تذکرہ کر سکے۔البتہ جتنا میں نے اُسے محسوس کیا ہے، اس کے کردار کو اپنے قلم سے واضح کرنے کی پوری کوشش کر رہا ہوں تاکہ میرے قلم کو شہیدوں کے بہتے لہو نے قرضدار کیا ہے، اس قرض کو ادا کر سکوں۔
وقت وحالات، والدین پر فیس کا بوجھ، غلامی اور مشکلات میں تعلیمی غرض نے حفیظ کو اپنے گھر سے میلوں دور جانے پر مجبور کردیا۔ نیمرغ کاریز قمبرانی کے پرائمری اسکول سے علم کی پیاس کو اپنے لب و سینے میں ابھار کر یہ نوجوان در بہ در کی ٹھوکریں کھاکر اس تشنگی میں شدت اختیار کرواتا رہا. نیمرغ جیسے پسماندہ گاؤں سے پرائمری مکمل کرکے قلات کا رُخ کیا، پھر میٹرک پاس کرکے تعلیمی حصول کے خواب کی تعبیر پانے کیلئے اوتھل کی جانب اپنا سفر رواں رکھا۔.
اس تعلیمی شاہراہ پر سفر، پھر اُسے شال تک لے گیا، اس مقبوضہ وطن میں والدین کی تنگ دستی نے کئی حفیظ جیسے تشنہ علم کو اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور کیئے، گھر چھوڑ کر دور پڑھائی کے غرض سے شہروں کا رُخ کرنا، انتہائی مشکل وقت ہوتا ہے، برسوں تک ہاسٹل کے زندگی گذار کر ایک دن ایسا آجاتا ہے کہ گھر کا راستہ ہمارے یاداشت میں آدھی رہ جاتی ہے۔

سنگت حفیظ نے بھی ایسا ہی وقت تعلیم حاصل کرنے کیلئے گذارا تھا،اوتھل سے ایف ایس سی مکمل کرکے جب کوئٹہ جیسے شہر میں اپنا قدم رکھا تو اس کے خیالات کافی بدل چکے تھے، مگر اسکی خصلتیں اور گوریلا سوچ ذرا بھی بدلا نہیں تھا، جو بچپن سے اس کا شوق ہوا کرتا تھا۔

جب وہ اپنے گاؤں میں اپنے ہم عمروں کے ساتھ کھیل کود میں مصروف تھا، اس کے خیالات اس کے سارے ہم عمر لڑکوں سے مختلف تھے، پکنک کا بہانہ کرکے روز پہاڑوں پہ جانا راستے میں پڑا خالی بوتل اگر اسے مل جاتا تو اس کو اپنے ہنر و فن سے چرواہا کے مشک کی طرح بناکر پھر پانی سے بھر کر اپنے کندھے میں لٹکا دیتا، جیسے گوریلا ضبط اُسے وراثت میں ملی ہو۔

میں اس کی ان خصلتوں کو ورثے کا دیا ہوا تحفہ کیوں نہ کہوں جسکی پیدائش سے لیکر اس کے ہوش سنبھالنے تک آزاد وطن کیلئے گوریلاؤں کی بندوق کی آواز کبھی خاموش نہیں ہوئے، شہیدوں کی لہو آبِ جو کے مانند بہہ کر گواڑخوں کو سینچتے رہے، پھر حفیظ میں کیسے یہ خصلتیں نہیں ہوتیں جبکہ وہ دورانِ غلامی میں جنم لینے والا ایک بلوچ بچہ تھا۔
جب اس نے شال کے گلیوں میں چہل قدمی کا آغاز کیا، تب وہ اپنے اندر چھپے گوریلہ چاکر کو کافی بیدار کرچکا تھا، ہر محفل میں دوستوں کے ساتھ محوگفتگو نظر آتا تھا، وطن کی فکر، راج کی غلامی، آزادی اور مساوات کی جنگ کا تذکرہ اس کے سوچ و فکر کے بالا حصوں میں تھے، جو اس کے زندگی کا اول و آخر مُدعا بن چکے تھے۔
وہ چاہتا تو اپنی تعلیم مکمل کرکے کسی سفارشی یا رشوت دے کر کسی ملازمت کا انتخاب کرتا، مگر وہ غلامی کی زندگی کو اچھی طرح محسوس کر چکا تھا. ذاتی آرزوں نے اسکی دہلیز پر دم توڑ دیا تھا. خواہشوں کی پہاڑ کوہِ نوردوں کے آگے محض راستے میں پڑے پتھر کی حثیت رکھتا ہے، جسے حفیظ نے اپنے راستے سے بچپن میں ہی ٹھوکر مار کر ہٹا دیا تھا۔
جب آزادی پسندوں نے قلات کے چاروں طرف اپنے سوچ و فکر کو اجاگر اور عوام میں آزادی کی شعور بانٹنے کا کام جوش و ولولے سے شروع کیا تھا، قلات کے ایک چھوٹے سے گاؤں نیمرغ پر بھی اپنی اثرات چھوڑنا شروع کیا تھا. بچہ بچہ اپنے تاریخ سے واقف ہونے لگا، غلامی کی کیفیت کو محسوس کرنے لگا اور اس فرسودہ و بدبو دار عمل کے خلاف لڑنے کا پختہ قصد کر لیا۔
وطن کے جانثاروں کی نیمرغ میں پیش قدمی نے حفیظ کے اندر برسوں سے چھپے چاکر کی وطن و راج کیلئے اُمیدوں میں جان ڈال دی، تعلیم کیلئے در در کی ٹھوکروں کے بعد حفیظ ایک بار پھر اپنے کوہِ نوردی کے ساتھ گاؤں پہنچا اور اپنے ضد کے زور پر وہاں پہنچا، جس جگے کا خواب اس نے جاگتے ہوئے برسوں پہلے دیکھا تھا۔.
جب حفیظ وطن پرستوں کے کاروان میں نظر آنے لگے، تو اس کے اندر برسوں سے چھپے گوریلا کو چاکر نام سے نوازا گیا، شہید چاکر انتہائی قلیل وقت میں کاروان کے سنگتوں کے دلوں میں گھر کر گیا، یہ اس کی اندرونی گوریلہ خوبیاں تھیں، یا پھر اس کی مخلصی کہ اس کے پاس دل جیتنے کا ہنر موجود تھا۔

سنگت نے ایک ایسی ضد اپنی زندگی کا حصہ بنایا تھا، جس میں کامیابیوں کی طرف بڑھنے کی اُمنگیں، پھوٹ پھوٹ کر نظر آتے تھے، “چاہے جو بھی ہو کام مکمل کرکے چین کی سانس لینا ہے”. یہ سنگت کے خیالات اور ہمت کی ایک مثال۔
بچپن سے لیکر اپنی زندگی کے آخری دنوں تک جس ضد کو اپنے اندر بیدار کیا ہوا تھا، اُسی ضد نے اُسے سب سے مختلف بنایا تھا، کام مکمل کرنے کے ساتھ ساتھ دوستوں کو مطمئین کرنے کا مخزن بھی اس کے اندر کی دنیا میں چھپا ہوا تھا۔ جس کام کو اس کے ہمراہ دوست ادھورا چھوڑ دیتے، وہ اُس کام کو مکمل کرنے کیلئے اپنے ضد کا سہارا لیکر تکمیل تک پہنچا دیتا۔ یہی ضد اس نے آزادی کے حصول کیلئے ڈھال کر، کاروان میں شامل ہوا تھا۔

سنگت حفیظ کے بدن پر دشمن کے ٹارچر سے اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ دشمن نے حفیظ کو نہیں ضدی چاکر کو اغواء کرکے اپنے کالی کوٹھڑی میں قید کرکے طرح طرح کے اذیتیں دی تھیں، مگر اس کے جسم میں پیوست آلات کی زرّے گواہی دے رہے تھے کہ سنگت چاکر نے جس جوش و ولولے سے آزادی کی شاہراہ پر قدم رکھا تھا، اس سے بھی زیادہ قوتِ برداشت اور حب الوطنی کا اظہار وہ دشمن کے عقوبت خانوں میں بھی کرچکا تھا اور دشمن کو …