پاکستان کی سپریم کورٹ نے حیات بلوچ قتل کیس میں سزائے موت پانے والے فرنٹیئر کور (ایف سی) کے اہلکار شادی اللہ کی سزا کو عمر قید میں تبدیل کر دیا ہے۔
یہ فیصلہ عدالتِ عظمیٰ نے سنایا، جس میں عدالت نے کہا کہ مقدمے کے شواہد “ناقابلِ انکار ضرور ہیں، مگر نیت کے حوالے سے شبہ باقی رہتا ہے۔”
پاکستان کے صحافی حامد میر نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پہ لکھا ہے کہ سپریم کورٹ نے حیات بلوچ کے قاتل ایف سی اہلکار کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا ایف سی اہلکار نے بے گناہ حیات بلوچ کو زمین پر لٹا کر اسکے بوڑھے والدین کے سامنے آٹھ گولیاں ماریں۔
یہ فیصلہ اس مقدمے کے پانچ سال بعد سامنے آیا ہے، جس نے 2020 میں بلوچستان کے شدید عوامی ردِعمل پیدا کیا تھا۔
13 اگست 2020 کو تربت کے علاقے آبسر میں ایک واقعہ پیش آیا۔ کراچی یونیورسٹی کے طالبِ علم حیات مرزا بلوچ اپنے والدین کے ساتھ کھجور کے باغات میں موجود تھے کہ اسی دوران ایف سی کی گاڑی کے قریب دھماکہ ہوا۔ دھماکے کے فوراً بعد، ایف سی اہلکاروں نے اردگرد کے افراد کو روک لیا۔
عینی شاہدین کے مطابق، اہلکاروں نے حیات بلوچ کو زمین پر لٹایا، ان کے ہاتھ پیچھے باندھے، اور ان کے بوڑھے والدین کے سامنے آٹھ گولیاں مار کر قتل کر دیا۔
موقع پر موجود لوگوں نے بتایا کہ حیات بلوچ کے والدیں چیختے رہے کہ ان کا بیٹا بے گناہ ہے، مگر اہلکار نے فائرنگ جاری رکھی۔
واقعے کی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں، جس کے بعد بلوچستان میں شدید غم و غصہ پھیل گیا سوشل کیمپین نے عالمی سطح پر بھی توجہ حاصل کی۔
قتل کے بعد ایف سی نے ابتدائی طور پر واقعے کی تردید کی، مگر عوامی دباؤ کے بعد شادی اللہ کو حراست میں لے لیا گیا۔
تربت کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز کورٹ نے 20 جنوری 2021 کو شادی اللہ کو قتل سزائے موت سنائی، اور ساتھ ہی مقتول کے خاندان کو جرمانے کی ادائیگی کا حکم دیا۔
ملزم کی اپیل بعد میں بلوچستان ہائی کورٹ میں دائر کی گئی، جہاں سے کیس بالآخر سپریم کورٹ تک پہنچا۔ سپریم کورٹ نے سزائے موت کو عمر قید میں بدل دیا۔

















































