ریحان جان خزاں کو بہار میں بدل گئے – زر ساہ بلوچ

69

ریحان جان خزاں کو بہار میں بدل گئے

تحریر: زر ساہ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

“زندگی دینا صرف اس وقت حق ہے جب اسے بے غرضی سے دیا جائے۔” — جوزے مارتی

ریحان جان نے ایک عظیم مقصد اور ایک مقدس خواب کی خاطر بے غرض ہو کر اپنی جان دے دی۔ ریحان جان اُس وقت اپنی جان دینے کے لیے تیار ہوئے جب بلوچ آزادی کی تحریک ایک ایسے موڑ پر کھڑی تھی جہاں دلوں میں مایوسی، ناامیدی، بے یقینی اور تحریک سے بیزاری نے اپنی جڑیں مضبوط کر لی تھیں۔

ریحان جان ایک عظیم خیال، نظریے اور عمل کے لیے اپنی جان نذر کر کے سارے کھیل کا رُخ بدل دیتے ہیں۔ وہ ایک ایسے بنجر کھیت کو آباد کر کے چلے جاتے ہیں، جسے برباد کرنے کے لیے کئی “کسانوں” نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔

استاد اسلم، لمہ یاسمین، گہار عائشی جیسے کردار صرف اُن قوموں کو نصیب ہوتے ہیں جو واقعی عظیم ہوں۔ اور بدبخت ہے وہ قوم جو ایسے کرداروں کو سمجھنے سے بے حس ہو جائے۔

زندگی ایک خوبصورت شے ہے—فطرت، اس کی لذتوں اور رنگینیوں میں گم ہو کر اس کے خمار میں جینا نہایت دل آویز اور شاندار ہے۔ شاید ایسا جینا زندگی کا حق بھی ہو۔ لیکن ایک غلام بن کر زندگی کی ساری رنگینیوں اور تخلیقی حسن سے بے نیاز رہنے سے بہتر یہی ہے کہ باغی رہ کر مزاحمت کی جائے اور ایک عظیم مقصد، فکر اور عمل کے لیے جان دی جائے۔

ریحان جان نے اپنے عمل سے یہ بات واضح کر دی ہے کہ بہترین کردار “کرنا” ہے، یعنی صرف بحث اور باتوں سے کچھ نہیں بدلے گا۔ اگر تبدیلی چاہتے ہو تو بولنے سے زیادہ کرنا سیکھو۔ جو رکاوٹیں اور مشکلات ہمارے رہنماؤں اور جہدکاروں نے—چاہے دانستہ یا نادانستہ—بلوچ آزادی کی تحریک کے سامنے ڈال دی تھیں، وہ صرف تقریروں اور بحثوں سے ختم ہونے والی نہیں تھیں، بلکہ مزید بڑھ رہی تھیں۔ ان سب کو ریحان جان کی بے غرض قربانی اور عملی جدوجہد نے صاف کر دیا۔

اگر ہم واقعی اس تحریکِ آزادی سے مخلص ہیں، شہیدوں کے خوابوں کی تعبیر کے لیے ایماندار ہیں، اپنے اسیروں کے درد پر بے قرار ہیں، اور اپنی قوم، ماں، بہن، بھائی اور باپ کی دردناک کہانیوں سے بے چین ہیں—تو اس کا تقاضا یہی ہے کہ ہم خود کو مکمل طور پر عمل میں ڈالیں۔ ایسا عمل، جس سے ہماری روح اور ہمارا وجود مطمئن ہو۔ ہر جہدکار کو اپنا ذاتی کردار اور عمل بہترین بنانا ہوگا، تب ہی اجتماعی کردار اور عمل بھی بہترین ہوگا۔

ریحان جان کا دیا ہوا درس یہی ہے کہ اگر وہ قربانی دینے سے پہلے شکایتوں اور گِلے شکووں میں الجھے رہتے، تو آج جو کردار انہوں نے ادا کیا وہ کبھی ممکن نہ ہوتا۔ بلکہ انہوں نے ان سب باتوں سے بالاتر ہو کر، بے غرض ہو کر ایک عظیم اور مقدس مقصد کے لیے خود کو نذر کیا۔ یہی عمل اور یہی بے غرضی اصل انقلاب کی راہ میں اصل روشنی بن جاتی ہے۔

ہمیں اسی فلسفے اور تعلیم کو سمجھنا ہے، اور سمجھنے کے بعد اس پر عمل کرنا ہے۔ یہی فلسفہ ہے کہ بے غرض قربانی اور عمل کس طرح تاریکی اور ناامیدی کو روشنی اور امید میں بدل دیتے ہیں۔ اسی فلسفے اور عمل کو اپنا کر چلیں، پھر دیکھیں کہ ہمارے خواب کیسے پورے ہوتے ہیں۔ ریحان جان اور ہمارے تمام شہیدوں کی قربانی کا حقیقی صلہ بھی یہی ہے کہ ہم خود کو مکمل طور پر عمل میں رکھیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔