ٹانک میں فوجی آپریشن کے دوران بچی کی ہلاک، احتجاج پر مزید ہلاکتیں

62

پاکستانی فوج کی فائرنگ کے نتیجے میں ٹانک میں ایک بچی جانبحق ہوگئیں، واقعے پر احتجاج کرنے والے افراد پر فائرنگ کے نتیجے میں مزید جانی نقصانات ہوئی۔

پاکستانی فورسز کے گولی کا نشانہ بننے والی بچی کے رشتہ دار اور مقامی طور پر ویلج کونسل کے چیئرمین محمد علی کے مطابق سب رشتہ دار نمازِ عصر کے لیے تیار تھے کہ اتنے میں گاڑیوں کی آوازیں آنا شروع ہو گئیں۔ ‘ہمارا چھوٹا سا گاؤں ہے اور ایک پتلی سڑک ہے، (یہاں) زیادہ گاڑیاں نہیں آتیں۔’

ان کے بقول 23 جولائی کی شام گاؤں میں پاکستانی فورسز کے لوگ گاڑیوں میں آئے تھے اور فورسز کی بکتر بند گاڑی کے پیچھے پولیس کی نیلے رنگ کی بکتر بند گاڑیاں بھی تھی۔

محمد علی نے بتایا کہ ‘ہم بھاگے کیونکہ ہمیں بچوں کا ڈر تھا۔ اس وقت بچے وہاں کھیل رہے تھے۔ اتنے میں فائرنگ کی آوازیں آئیں جس میں ایک بچی کو گولی لگی اور وہ وہیں دم توڑ گئی۔ باقی بچے گھروں میں چلے گئے تھے۔’

اس واقعے کے بعد مقامی لوگ اور قریبی علاقوں سے بڑی تعداد میں لوگوں نے احتجاج کیا ہے اور اما خیل کالج کے سامنے دھرنا دیا۔

اس بارے میں محمد علی شاہ نے بتایا کہ ان کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ وہ حکومت کی موجودہ پالیسی میں تبدیلی چاہتے ہیں۔ وہ یہ پالسی نہیں چاہتے جس میں ‘بے گناہ پشتونوں کا خون بہایا جا رہا ہے۔

علاقے کے رہنما عبدالقیوم نے بتایا کہ حالات پریشان کن ہیں اور وہ اس بارے میں مشاورت کریں گے۔

انھوں نے کہا کہ ‘ان واقعات کی روک تھام کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کی پشتون لیڈرشپ کو ایک پیج پر آنا ہو گا اور ایک ہی موقف اختیار کرنا ہوگا۔

پتو لالہ کے مطابق یہ سیاستدان ‘الگ الگ جرگے اور قبائل سے ملاقاتیں کر کے بیانات جاری کر دیتے ہیں لیکن ان واقعات کی روک تھام کے لیے ایک ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں ہیں۔

واقعے کے خلاف تیراہ میدان مرکزی باغ بریگیڈ ہیڈکوارٹر کے باہر عوامی احتجاج کے دوران حالات کشیدہ ہوگئے۔

مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے کی گئی فائرنگ کے نتیجے میں 3 افراد جاں بحق جبکہ 8 زخمی کی اطلاعات ہیں۔

پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین نے کہا ہے کہ پنجابی جرنیل ہر روز پشتونوں کی قتل عام میں مصروف ہیں۔ انہوں نے تصدیق کی ہے کہ وادی تیراہ میدان میں پاکستانی فوج نے 17 پشتون زخمی اور پانچ شہید کئے۔

انہوں نے کہاکہ پشتون علاقے تیراہ دربار ذخہ خیل میں فوج کی مارٹر شیلنگ سے اجمل خان آفریدی کی کمسن بیٹی کی شہادت کے بعد وادی کے پشتونوں نے احتجاج شروع کیا، جس پر قابض فوج نے حملہ کیا اور تاریخی طور پر اس سرزمین کے مالک 17 پشتونوں کو زخمی اور 5 کو شہید کر دیا۔

انہوں نے کہاکہ اس جنگ کو محض وسائل کی لوٹ مار تک محدود کرنا سنگین ناانصافی اور انتہائی زیادتی ہوگی، یہ جنگ وسائل سے بڑھ کر پشتونوں کی نسل کشی کی جنگ ہے۔