امریکہ کے طول و عرض میں لاکھوں مظاہرین سڑکوں پر آ کر اسلحے پر زیادہ سخت کنٹرول کے حق میں مظاہرے کر رہے ہیں۔
اس تحریک کا نام ‘اپنی زندگیوں کے لیے مارچ’ رکھا گیا ہے اور اس کا آغاز اس وقت ہوا جب گذشتہ ماہ فلوریڈا کے شہر پارک لینڈ کے ایک سکول میں فائرنگ کے واقعے میں 17 افراد مارے گئے تھے۔
پارک لینڈ کے حملے میں بچ جانے والی طالبہ ایما گونزالس نے واشنگٹن ڈی سی میں اس بارے میں ایک طاقتور تقریر کی۔
مقتولین کے نام گنوانے کے بعد وہ چھ منٹ، 20 سیکنڈ تک خاموش رہیں۔ یہ وہ وقت تھا جس کے دوران قاتل گولیاں برساتا رہا تھا۔
ملک بھر میں 800 کے قریب ایسے ہی احتجاجی مظاہروں کی منصوبہ بند
ی کی گئی ہے، جب کہ لندن، جنیوا، سڈنی، ٹوکیو اور ایڈنبرا میں بھی اظہارِ یکجہتی کی خاطر مظاہرے ہو رہے ہیں۔
امریکہ کے مشرقی حصوں میں ہونے والے مظاہروں کے بعد اب مغربی ساحل پر احتجاجی جلوس اور جلسے منعقد کیے جا رہے ہیں اور لاس اینجلس میں ایک بڑا مظاہرہ ہوا ہے۔
نیویارک سے لے کر الاسکا تک چھوٹے بڑے شہروں میں سینکڑوں جلوس نکالے گئے ہیں۔
اسلحہ نہیں، بچوں کو بچاؤ
دارالحکومت کے پینسلوینیا ایوینو میں ہونے والے جلسے میں بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی جن میں بچے اور نوجوان زیادہ تھے۔ انھوں نے جو پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے ان پر لکھا تھا، ‘اسلحہ نہیں، بچوں کو بچاؤ،’ اور ‘کیا اب میری باری ہے؟’
آریانا گرینڈ، مائلی سائرس اور لن مینوئل میرانڈا جیسے مقبول گلوکاروں نے امریکی کانگریس کی عمارت کے باہر گیت گائے۔
بیچ بیچ میں تقریریں بھی ہوتی رہیں۔ طلبہ نے پرجوش انداز میں لوگوں سے خطاب کیا۔
پارک لینڈ سے تعلق رکھنے والی ایک مقرر ڈیلنی ٹار نے کہا: ‘ہم اپنے مردہ ساتھیوں کے لیے لڑتے رہیں گے۔’
ایک تقریر 11 سالہ نیومی والڈر نے کی، جن کا تعلق ریاست ورجینیا سے ہے۔ انھوں نے کہا کہ وہ ‘سیاہ فام امریکیوں کی نمائندگی کر رہی ہیں جن کی آوازیں ہر قومی اخبار کے صفحۂ اول تک نہیں پہنچ پاتیں۔’
تحریک کیسے شروع ہوئی؟
14 فروری کو پارک لینڈ کے سٹون مین ڈگلس ہائی سکول میں ہونے والا فائرنگ کا واقعہ امریکی سکولوں میں ہونے والے حملوں کے لمبے سلسلے کی ایک کڑی تھا۔
اس کے بعد وہاں احتجاجی جلوس منعقد کیے گئے جن میں سب سے بڑھ کر گونزالس نے حصہ لیا۔ یہ تحریک سوشل میڈیا تک بھی پہنچ گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے گونزالس کے ٹوئٹر فالوورز کی تعداد دس لاکھ تک پہنچ گئی۔
بعد میں اس تحریک میں دوسرے حملوں سے متاثرہ طلبہ اور دوسرے لوگ بھی آ آ کر شریک ہونے لگے۔
اس ماہ کے شروع میں انھوں نے ملک بھر میں سکولوں سے واک آؤٹ کا اہتمام کیا تھا۔
ان کا مقصد امریکی سیاست دانوں کو قائل کرنا ہے کہ وہ اسلحے اور خاص طور پر خودکار اسلحے پر پابندی کی اقدامات کریں۔
ہفتے کو ہونے والے ان مظاہروں میں بہت بڑی تعداد میں لوگوں نے حصہ لیا ہے تاہم اسلحے کا معاملہ امریکہ میں ہمیشہ کی طرح اب بھی متنازع ہے۔
امریکی آئین اسلحہ رکھنے کے حق کا تحفظ کرتا ہے اور اس حق کا حامی ادارہ نیشنل رائفل ایسوسی ایشن انتہائی بااثر ہے۔
ہفتے کی سہ پہر وائٹ ہاؤس نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا تھا ان نوجوان امریکیوں کی تعریف کی گئی تھی۔
تاہم مظاہرین کو اس پر مایوسی ہوئی ہے کہ صدر ٹرمپ نے اس بارے میں کوئی ٹویٹ نہیں کی۔