بلوچ کلچر ڈے! ایک تہذیبی و مزاحمتی ورثے کی تجدید
تحریر: رامین بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچ کلچر ڈے کو سمجھنے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم “ثقافت” اور “کلچر” کی اصل تعریف کو جانیں۔ جب ہمیں ثقافت کا درست ادراک ہوگا، تو ہم بلوچ کلچر ڈے کے منانے کی وجوہات اور اس کے پس منظر کو بہتر طور پر سمجھ سکیں گے۔
عمومی طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ “کلچر” شاید دستار، پوشاک یا پہناوے کا نام ہے، لیکن میری نظر میں یہ اس کی درست تعریف نہیں۔ ثقافت دراصل صرف دستار اور بلوچی لباس تک محدود نہیں ہے۔ لباس کلچر کا ایک “جز” ضرور ہے، لیکن کل کلچر کا مجموعہ نہیں۔ یہ محض میرا ذاتی نکتہ نظر نہیں بلکہ سماجیات (سوشیالوجی) کے ماہرین کی تحقیق اور متفقہ رائے ہے کہ کلچر صرف لباس کو نہیں کہا جاتا، بلکہ یہ کسی بھی قوم کے مشترکہ اقدار، تہذیب، مزاحمت، زبان، ادب، آرٹ، طرزِ زندگی، قوانین، اصول، روایات، اعمال، افعال، عادات، خیالات اور نظریات کا مجموعہ ہوتا ہے۔
اگر ہم سطحی سوچ سے نکل کر سنجیدگی سے کلچر کو سمجھنے کی کوشش کریں، تو معلوم ہوگا کہ “ثقافت” دراصل “تہذیب” کے حوالے سے ایک اصطلاح کے طور پر استعمال کی جاتی ہے۔ بلکہ ثقافت، کسی بھی قوم کی تہذیب کا نام ہے، جو اس قوم کے سماجی رویوں، مزاحمت، علم، نظریے، خیالات، اخلاق، کردار اور رسم و رواج کو نمایاں کرتی ہے۔
ہمارے ہاں ثقافت کے حوالے سے جو تصور قائم کیا گیا ہے، وہ محدود ہے۔ جب ہم ثقافت کو “تہذیب و مزاحمت” کی تعریف کے تحت سمجھیں گے، تب ہمیں معلوم ہوگا کہ ثقافت دراصل بلوچ راجی زندگی کا بنیادی اصول ہے، جس کے دائرے میں رہ کر وہ اپنی زندگی گزارتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ جب ہم ثقافت کی تعریف کرتے ہیں، تو عمومی طور پر نوآبادیاتی طرزِ فکر کو اپناتے ہیں اور ثقافتی مزاحمت کے پہلو کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ نوآبادیاتی نظام نے ہماری علمی، فکری اور نظریاتی ساخت کو اس انداز میں متاثر کیا کہ ہم اپنی ثقافت کو صرف دستار، چھڑی اور پوشاک سمجھنے لگے۔ نوآبادیاتی طرزِ فکر کے تحت ثقافت کی تعریف کو صرف لباس یا رسم و رواج تک محدود کر دیا جاتا ہے، جبکہ حقیقت میں یہ ایک مکمل طرزِ زندگی ہوتی ہے۔
نوآبادیاتی طاقتیں کلچر ڈے کو پروموٹ کرکے قومی تہذیبوں کی مزاحمتی روح کو دبانے کی کوشش کرتی ہیں، تاکہ وہ سامراجی اثرات کے مطابق خود کو ڈھال لیں۔ جب ہم ثقافت پر گفتگو کرتے ہیں، تو اکثر اسی نوآبادیاتی فریم ورک میں رہ کر کرتے ہیں۔ ہم اپنی ثقافت کو ایک مظلومانہ انداز میں بیان کرتے ہیں، جہاں ہم صرف اس کے ختم ہونے یا زوال پذیر ہونے کی بات کرتے ہیں، لیکن ہم یہ نہیں دیکھتے کہ ثقافت کا ایک بنیادی پہلو مزاحمت بھی ہے۔
بلوچ ثقافت نہ صرف ایک طرزِ زندگی اور کوڈ آف کنڈکٹ ہے، بلکہ ہمیشہ حملہ آوروں کے خلاف ایک مزاحمتی ہتھیار بھی رہی ہے۔ جب کوئی طاقت کسی قوم پر قبضہ کرتی ہے، تو سب سے پہلے اس کی ثقافتی شناخت کے مزاحمتی پہلو کو مٹانے کی کوشش کرتی ہے، کیونکہ جب کسی قوم کی ثقافت ختم ہو جاتی ہے، تو اس کی مزاحمت کی طاقت بھی کمزور پڑ جاتی ہے۔
اگر ہم ثقافت کو صرف روایتی فریم ورک میں دیکھیں گے، تو ہم نوآبادیاتی ذہنیت کا شکار رہیں گے۔ لیکن اگر ہم ثقافت کو ایک زندہ، مزاحمتی اور متحرک قوت کے طور پر دیکھیں گے، تو ہم اسے سامراجی اثرات کے خلاف ایک ہتھیار بنا سکتے ہیں۔
ثقافت کی مزاحمتی حیثیت کو تسلیم کرنا ضروری ہے کیونکہ یہ قومی شناخت کا بنیادی ستون ہے۔ اگر مزاحمت نہ رہے تو قوم اپنی پہچان اور ثقافت بھی کھو بیٹھتی ہے۔
ثقافت محض ایک جامد شے نہیں، بلکہ ایک مسلسل بدلنے اور لڑنے والی حقیقت ہے۔ اگر ہم صرف نوآبادیاتی نقطہ نظر سے ثقافت کی تعریف کریں گے، تو ہم اپنے ہی وجود کو کمتر محسوس کریں گے۔ ہمیں اپنی ثقافت کو ایک مزاحمتی قوت کے طور پر دیکھنے اور اسے اپنی بقا اور آزادی کے لیے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔
ثقافت کو صرف لباس، رسم و رواج، یا روایات تک محدود نہیں کرنا چاہیے، بلکہ اسے ایک نظریہ، ایک سیاسی قوت، اور ایک انقلابی تحریک سمجھنا چاہیے، جو سامراجی تسلط کے خلاف مسلسل برسرِ پیکار رہے۔
بلوچ سیاسی و مسلح مزاحمتی جدوجہد بھی ثقافت کا ایک اہم حصہ ہے۔ ثقافت محض لباس، موسیقی، زبان، اور روایات تک محدود نہیں ہوتی، بلکہ اس میں قومی مزاحمت، آزادی کی جدوجہد، اور سامراجی قوتوں کے خلاف مزاحمتی نظریہ بھی شامل ہوتا ہے۔ بلوچوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ انہوں نے ہمیشہ اپنی زمین، شناخت، اور آزادی کے لیے مزاحمت کی ہے، اور یہ جدوجہد خود ان کی ثقافت کا ایک بنیادی جزو بن چکی ہے۔
دنیا بھر میں ہر وہ قوم جو غلامی کے خلاف لڑتی ہے، اپنی مزاحمتی جدوجہد کو ثقافت کا حصہ بناتی ہے۔ بلوچ بھی ان قوموں میں شامل ہیں، جنہوں نے اپنی تہذیبی وراثت اور ثقافتی شناخت کو سامراجی قوتوں سے بچانے کے لیے مسلسل مزاحمت کی ہے۔ بلوچ ثقافت میں بندوق، رزمیہ شاعری، انقلابی موسیقی، اور مزاحمتی ادب کو ایک قومی ورثے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
بلوچ قوم نے مختلف ادوار میں مغلوں، پرتگیزیوں،سکندر اعظم، اور محمد بن قاسم جیسے حملہ آوروں، انگریزوں، اور پاکستانی ریاستی جبر کے خلاف مزاحمت کی ہے۔ یہ مزاحمت صرف جنگی محاذ تک محدودنہیں رہی، بلکہ سیاسی تحریکوں، ادبی مزاحمت، اور نظریاتی جدوجہد کا بھی حصہ رہی ہے۔
بلوچ شاعری اور ادب میں ہمیشہ آزادی، وطن، اور جدوجہد کے عناصر نمایاں رہے ہیں۔کئی بلوچ شعراء و ادباء نے اپنی شاعری اور تحریروں میں مزاحمت کو موضوع بنایا۔
بلوچ لوک گیتوں میں ہمیشہ ظلم کے خلاف” راجی جنز” اور آزادی کے “مطالبہ “کو بیان کیا گیا ہے۔ انقلابی گیت بلوچوں کے لیے نہ صرف تفریح ہیں، بلکہ حوصلہ بڑھانے اور نظریاتی بیداری پیدا کرنے کا ایک ذریعہ بھی ہیں۔
بلوچ قومی تحریکیں بھی قومی ثقافت کا حصہ ہیں، کیونکہ انہوں نے بلوچوں کی سماجی اور سیاسی شناخت کو برقرار رکھنے میں کردار ادا کیا ہے۔
تاریخ میں وہ اقوام زیادہ مضبوط اور پائیدار ثابت ہوئی ہیں جنہوں نے ظلم اور جبر کے خلاف اپنی مزاحمت کو نہ صرف عملی میدان میں اپنایا، بلکہ اسے اپنی ثقافت کا حصہ بھی بنایا۔ دنیا کے ہر خطے میں مزاحمتی ثقافت کی مختلف شکلیں موجود رہی ہیں۔
بلوچ قوم کے لیے بندوق صرف ایک ہتھیار نہیں، بلکہ ثقافت، غیرت، آزادی، اور بقا کی علامت رہی ہے۔ بلوچ سماج میں بندوق کو زیور کی طرح دیکھا جاتا ہے، کیونکہ یہ نہ صرف دفاع کا ذریعہ ہے، بلکہ اس کا تعلق بلوچ تاریخ، روایات اور سماجی ڈھانچے سے بھی جڑا ہوا ہے۔بلوچ سرزمین ہمیشہ سے بیرونی حملہ آوروں، سامراجی طاقتوں، اور نوآبادیاتی قوتوں کے خلاف مزاحمت کرتی آئی ہے۔ بلوچوں نے مختلف ادوار میں اپنی آزادی کو برقرار رکھنے کے لیے ہتھیار اٹھائے، اور یہی مزاحمت ان کی ثقافت کا لازمی حصہ بن گئی۔
ان جنگوں میں بندوق ہمیشہ ایک دفاعی اور مزاحمتی ہتھیار رہی ہے۔ ہر بلوچ گھر میں بندوق کا ہونا ایک عام بات ہے، جیسے دوسرے معاشروں میں زیور یا دیگر ثقافتی علامات ہوتی ہیں، بلوچ معاشرے میں بندوق کی حیثیت بھی ویسی ہی ہے۔ یہ وراثت میں منتقل ہوتی ہے، اور اس کے پیچھے ہمیشہ سے بلوچ میں یہ شعور رہا ہے کہ وہ اس کے ذریعے اپنی آزادی، شناخت، اور زمین کی حفاظت کر سکتا ہے۔
بلوچ کے لیے بندوق صرف ایک ہتھیار نہیں، بلکہ ایک علامت، وراثت، اور ثقافتی پہچان ہے۔ یہ آزادی، خودمختاری، غیرت، اور تحفظ کی نشانی ہے۔ بلوچ بندوق کو زیور کی طرح عزیز رکھتا ہے کیونکہ یہ اس کی ثقافت اور تاریخی مزاحمت کا اہم حصہ ہے۔
لیکن مزاحمت صرف بندوق یا جنگ تک محدود نہیں ہوتی، بلکہ یہ مختلف طریقوں سے ثقافتی اظہار کا حصہ بن سکتی ہے۔
ادب اور شاعری میں مزاحمت، موسیقی اور لوک گیتوں میں مزاحمت، سیاسی جلسوں احتجاجوں،سیمیناروں کے شکل میں مزاحمت،لٹریچر کے زریعہ مزاحمت، فنِ مصوری میں مزاحمت،گرافٹی آرٹ، مزاحمتی پینٹنگزیہ سب قابض قوتوں کے خلاف احتجاج کا اہم ذریعہ ہیں۔ جن معاشروں میں مزاحمتی ثقافت مضبوط ہو، وہاں غلامی، استحصال، اور جبر کے خلاف اجتماعی شعور پیدا ہوتا ہے۔
اسی طرح ثقافت محض فن، ادب، موسیقی، یا لباس تک محدود نہیں، بلکہ اس میں مزاحمت ایک لازمی عنصر کے طور پر شامل ہوتی ہے۔ بلوچ ثقافت ہمیشہ سے ایک مزاحمتی قوت رہی ہے، اور جب تک یہ مزاحمت قائم ہے، تب تک ثقافت اور قومی شناخت بھی محفوظ رہے گی۔
ہر وہ قوم جو اپنی بقا کے لیے لڑتی ہے، وہ اپنے مزاحمتی نظریات، افکار، اور رویوں کو ثقافت کا حصہ بناتی ہے۔ لہٰذا، جب ہم ثقافت کی بات کرتے ہیں تو ہمیں صرف ایک دن کا تہوار، علامتی دن،رسم و رواج تک محدود نہیں رہنا چاہیے، بلکہ یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ مزاحمت ثقافت کا ایک اہم اور بنیادی جز ہے، جو قوموں کو جینے کا حوصلہ دیتا ہے اور انہیں ان کے حقوق کے لیے لڑنے کی ترغیب دیتا ہے۔
کلچر صرف بلوچ قوم کا نہیں، بلکہ ہر قوم اپنے سماج کو ثقافتی ضابطہ اخلاق کا پابند بناتی ہے اور اسی کے تحت زندگی گزارنے کا ایک مشترکہ پیمانہ دیتی ہے۔ ہر قوم اپنی ثقافتی میراث پر فخر کرتی ہے۔ دوسرے اقوام کی طرح بلوچ قوم بھی ہزاروں سال پرانی تہذیبی تاریخ رکھتی ہے۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ نوآبادیاتی طاقتوں، خاص طور پر انگریزوں نے بلوچ تاریخ کو اپنے مفادات کے مطابق لکھا اور پیش کیا۔ برطانوی سامراج نے نہ صرف بلوچ سرزمین پر قبضہ کیا بلکہ یہاں کی تاریخ، ثقافت، اور قومی شناخت کو بھی مسخ کرنے کی کوشش کی
۔
انیسویں اور بیسویں صدی میں جب برطانوی راج نے بلوچستان پر قبضہ کیا، تو انہوں نے بلوچ بارے میں کئی تحریریں لکھیں۔ زیادہ تر
تحریریں برطانوی فوجی افسران اور نوآبادیاتی حکام کی لکھی ہوئی ہیں، جن کا مقصد بلوچوں کو ایک غیر مہذب قوم کے طور پر پیش کرنا تھا تاکہ ان کے خلاف ظلم و جبر کو جائز ٹھہرایا جا سکے۔
برطانوی راج کے افسران، جنہوں نے بلوچستان پر تحقیق کے نام پر کتابیں لکھیں، ان میں ایم۔ ایل۔ ڈیمز، ہنری پوٹنگر ، تھامس ہولڈچ ، رچرڈ برٹن. الیکسینڈر برنس،جان جیکب میجر جنرل چارلس میک موہن،لیفٹیننٹ جنرل رابرٹ سنڈیمن،کرنل ڈیوڈ پرائس،اور یہ سب انگریز فوجی افسران یا سیاسی ایجنٹ تھے، جنہوں نے بلوچوں کی تاریخ کو اپنی نوآبادیاتی پالیسیوں کے مطابق لکھا۔
انگریز مورخین نے بلوچوں کو محض قبائلی، غیر مہذب اوروحشی قوم کے طور پر پیش کیا،برطانوی راج کے بعد بعض پنجابی اور دیگر مورخین نے وہی نکتہ نظر اپنایا جو برطانوی مورخین نے تشکیل دیا تھا، جس میں ڈاکٹر انعام الحق کوثر ،معین قریشی ،مشتاق حسین قریشی،انور رومان نہ صرف بلوچوں کو غیر مہذب اور “قبائلی” قوم کے طور پر پیش کیا گیا بلکہ وہ بلوچ تاریخ کو برصغیر کے مرکزی بیانیے میں ضم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اور بلوچوں کی الگ اور منفرد قومی شناخت کو کمزور کرنے کی کوشش کی
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بلوچ ایک قدیم، مہذب، اور تہذیب یافتہ قوم ہے، جس کی گیارہ ہزار سال پرانی تہذیب (مہر گڑھ)اس کا ثبوت ہے۔
برطانوی مورخین نے اپنی تحریروں میں ہمیشہ یہ دکھانے کی کوشش کی کہ بلوچ کبھی خودمختار نہیں تھے اور وہ ہمیشہ کسی طاقت کے ماتحت رہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بلوچ قوم نے صدیوں تک اپنی خودمختاری برقرار رکھی اور ہر بیرونی حملہ آور کے خلاف مزاحمت کی۔
جب بلوچوں نے انگریزوں کے خلاف مزاحمت کی، تو یہ بلوچ ثقافت اور تہذیب کا اظہار تھا۔ انگریزوں نے بلوچوں کے خلاف ظالمانہ فوجی آپریشن کیے اور اپنی تحریروں میں ان آپریشنز کو امن قائم کرنے کے مشن کے طور پر پیش کیا، حالانکہ حقیقت میں یہ بلوچ قومی تحریک کو کچلنے کی کوششیں تھیں۔
بلوچستان کی حقیقی تاریخ ایک مزاحمتی تاریخ ہے، جسے برطانوی سامراج نے جان بوجھ کر مسخ کرنے کی کوشش کی۔ انگریز مورخین نے جو کچھ لکھا، وہ استعماری نقطہ نظر سے تھا، جس کا مقصد بلوچوں کو کمزور اور غیر مہذب قوم بنا کر پیش کرنا تھا۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ بلوچ مورخین اپنی اصل تاریخ کو تحقیق کی بنیاد پر دنیا کے سامنے لائیں اور سامراجی مفروضات کو بے نقاب کریں۔
انگریز مورخین کے استعماری نقطہ نظر کو ایک طرف رکھ کر اگر (مہر گڑھ) کی گیارہ ہزار سالہ قدیم تہذیب پر نظر ڈالیں، تو اندازہ ہوگا کہ بلوچ کلچر کتنا قدیم اور عظیم ہے۔ نہ صرف ایشیا بلکہ پوری دنیا میں بلوچ تہذیب و ثقافت کی اہمیت مسلمہ ہے۔
جب ہم بلوچ کلچر ڈے مناتے ہیں، تو ہماری مکمل تاریخ اور تہذیب ہمارے سامنے آجاتی ہے۔ ہمیں یہ احساس ہوتا ہے کہ ہم کون ہیں؟ ہماری اقدار، روایات اور جدوجہد کیا ہے؟
یہ دن ہمیں اپنے رہن سہن، بات کرنے کے انداز، مہمان نوازی، دشمنوں کے ساتھ برتاؤ، عورتوں اور بچوں کے حقوق، اور اجتماعی نظریات کی یاد دلاتا ہے۔ باہوٹ،پناہ دینے کی روایت، میار جلی،برادری اور تعلقات کا احترام، اور حملہ آوروں کے خلاف مزاحمت بلوچ ثقافت کے وہ عناصر ہیں جو اسے دوسری ثقافتوں سے ممتاز کرتے ہیں۔
ثقافت، کسی بھی قوم کی اجتماعی قدروں کے تحت زندگی گزارنے کے اصولوں کا نام ہے، اور اس کے متبادل کوئی اور معنی نہیں رکھتا۔
اب ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بلوچ کلچر ڈے منانے کی ابتدا کب ہوئی؟ اور اس کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ کیا کلچر ڈے صرف ایک دن کا تہوار ہے؟ کیا محض ایک دن مخصوص کرنے سے ہم اپنی ہزاروں سال پرانی ثقافت کو زندہ رکھ سکتے ہیں؟ یا ثقافت تو ہمارا روزمرہ کا معمول اور زندگی گزارنے کا طریقہ ہونا چاہیے؟
اس کا سادہ جواب یہ ہے کہ بلوچ کلچر ڈے پہلی بار 2010 میں منایا گیا۔ اس دن کو منانے کا فیصلہ بلوچ طلبہ تنظیم “بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن” نے کیا تھا اور اسے سالانہ دن کے طور پر منانے کا اعلان کیا گیا۔لیکن ریاست نے اس دن کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی اور خضدار میں کلچر ڈے کی تقریب پر حملہ کیا، جس میں دو نوجوان شہید اور متعدد زخمی ہوئے۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اب اسے ریاستی سطح پر بھی منائی جاتی ہے، اس میں کوئی شبہ نہیں جب کوئی قومی یا ثقافتی دن اپنی اصل روح کے ساتھ منایا جاتا ہے، تو نوآبادیاتی ریاستیں اور ان کے ایجنٹ اسے ہائی جیک کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بلوچ کلچر ڈے، جو اصل میں بلوچ قومی شناخت، تہذیب، اور مزاحمتی ثقافت کی علامت تھا، آج ایک ایسی شکل میں پیش کیا جا رہا ہے جہاں اس کی مزاحمتی اور قومی آزادی کی روح کو ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
2010 میں جب بی ایس او نے پہلی بار بلوچ کلچر ڈے منانے کا فیصلہ کیا، تو اس کا بنیادی مقصد بلوچ قوم کو اپنی اصل ثقافت، تاریخ، اور قومی مزاحمت سے جوڑنا تھا۔ اس دن کو منانے کا مطلب صرف بلوچی لباس پہن کر یا موسیقی بجا کر جشن منانا نہیں تھا، بلکہ بلوچ قومی بیداری اور آزادی کی تحریک کو اجاگر کرنا تھا۔اب ریاستی ایجنٹ کس طرح بلوچ کلچر ڈے کو مسخ کر رہے ہیں۔ بلوچ ثقافتی دن کو ایک فیشن شو بنا دیا گیا۔
پہلے بلوچ کلچر ڈے مزاحمتی اور انقلابی نظریات کا دن تھا، لیکن اب اسے صرف رنگ برنگے لباس، موسیقی، اور ڈراموں تک محدود کر دیا گیا ہے۔مزاحمتی گیتوں اور آزادی کے نعروں کی جگہ سرکاری پروپیگنڈا اور ریاستی بیانیہ پیش کیا جا رہا ہے۔
پہلے بلوچ کلچر ڈے کو طلبہ تنظیموں اور آزادی پسندوں نے منایا، لیکن اب ریاستی ایجنٹ، قبضہ گیر حکام، اور ان کے حامی سردار اسے اپنی مرضی سے کنٹرول کر رہے ہیں۔وہ کوشش کر رہے ہیں کہ اس دن کو ایک مزاحمتی علامت کے بجائے “وفاداری” “دلالی ” کے دن میں بدلا جائے۔
بلوچ ثقافت میں مزاحمت، غیرت، اور آزادی کی جدوجہد بنیادی عناصر ہیں، لیکن اب ان عناصر کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔
بلوچ جدوجہد، شہداء کی یاد، جبری گمشدہ افراد کا ذکر، اور قومی آزادی کی بات اب کلچر ڈے کی تقریبات سے غائب کی جا رہی ہیں۔
پہلے بلوچ کلچر ڈے کو سوشل میڈیا اور بلوچ حلقوں میں آزادی کے پیغام کے ساتھ منایا جاتا تھا، لیکن اب ریاستی میڈیا اسے اپنی مرضی کے مطابق پیش کر رہا ہے۔سرکاری چینلز پر صرف وہی پہلو دکھائے جاتے ہیں جو ریاست کے مفاد میں ہوں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بلوچ کلچر ڈے کی اصل روح ریاستی تسلط، نوآبادیاتی جبر، اور استحصالی قوتوں کے خلاف مزاحمت تھی، لیکن آج اسے ریاستی ایجنٹوں اور سرکاری سرپرستی میں ایک بے جان ثقافتی فیسٹیول میں تبدیل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ بلوچ عوام، دانشور، اور مزاحمتی تحریکیں اصل بلوچ کلچر ڈے کی روح کو بحال کریں، اور اسے ایک انقلابی اور قومی بیداری کے دن کے طور پر منائیں، نہ کہ ایک سرکاری ایونٹ کے طور پر۔
اگر ہم بین الاقوامی سطح پر دیکھیں تو مختلف حوالوں سے مزدوروں کا دن، خواتین کا دن، زبانوں کا دن، انسانی حقوق کا دن اور دیگر ثقافتی و سماجی ایام منائے جاتے ہیں۔ ان مخصوص دنوں کو منانے کا ایک خاص مقصد اور پس منظر ہوتا ہے۔
مثلاً زبانوں کے عالمی دن کی ابتدا بنگلہ دیش سے ہوئی، جہاں یہ دن پہلے بنگالی زبان کے تحفظ کے لیے منایا جاتا تھا۔ بعد میں، اقوامِ متحدہ
نے اسے تمام زبانوں کے تحفظ، فروغ اور ترقی کے عالمی دن کے طور پر تسلیم کر لیا۔ اسی طرح، 2 مارچ کو “بلوچ ثقافتی دن” منانے کا مقصد بھی بلوچ ثقافت کا تحفظ اور فروغ ہے۔یہ دن نہ صرف بلوچ ثقافت کو اجاگر کرنے کا ذریعہ ہے، بلکہ اس دن ہمیں اپنی قومی ثقافت کے فروغ کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنی ثقافت کو نوآبادیاتی ثقافتی اور تہذیبی حملوں سے محفوظ رکھنا ہوگا۔
یہ دن صرف سر، سنگیت، بلوچی لباس، اور دستار تک محدود نہیں ہونا چاہیے، بلکہ ہمیں اس بارے میں وسیع پیمانے پر ایک منظم حکمتِ عملی اور مضبوط تکنیکی نظام کے تحت کام کرنے کی ضرورت ہے۔ہم اپنی لباس کی نمائش ضرور کر سکتے ہیں، کیونکہ بلوچی کڑھائی میں مہر گڑھ کی کشیدہ کاری وہ فن ہے، جو ہماری مہذب ہونے کی علامت ہے۔ اسی طرح، بلوچی دستار کی ایک تقدیس اور عزت ہے، جس کے پیچھے بہادری، شجاعت اور غیرت کی تاریخ جُڑی ہوئی ہے۔ یہ صرف کپڑے کی ایک پٹی نہیں، بلکہ اس کے ہر بل و پیچ میں ہماری تاریخ، نظریات، اور ثقافتی پہچان پوشیدہ ہے۔بلوچی دستار محض ایک لباس کا حصہ نہیں، بلکہ ایمانداری، سچائی، خلوص، پاکیزگی، شرافت، عاجزی، بہادری، اور ذمہ داری کی علامت ہے۔ یہ بلوچ سماج کے طرہ امتیاز میں شمار ہوتی ہے۔
بلوچ ثقافتی دن کی مناسبت سے ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی شہداء، جبری گمشدہ افراد، اور بلوچ نسل کشی کو اجاگر کرنے کے لیے سیمینارز، ورکشاپس، پینل ڈسکشنز، مکالمے، اور بک فیسٹیولز کا انعقاد کریں۔یہ ایک مسلمہ قومی دن ہے، اور اس دن ہمیں تجدیدِ عہد کرنا چاہیے کہ ہم اپنی ثقافت کے تحفظ کے لیے ایک مضبوط انقلابی لائحہ عمل اور پالیسی مرتب کریں ۔ ہمیں اپنی عظیم روایات کو زندہ رکھنے اور اپنی آنے والی نسلوں کے مستقبل کو سنوارنے کے لیے عملی اقدامات اٹھانے ہوں گے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔