ہالینڈ کی ایک عدالت نے پیر کے روز تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ سعد رضوی اور الگ ہونے والے دھڑے ’تحریک لبیک یا رسول اللہ‘ کے سربراہ ڈاکٹر محمد اشرف جلالی کو اپنے پیروکاروں کو نیدر لینڈز کےانتہائی دائیں بازو کے اسلام مخالف قانون ساز گیرٹ وائلڈرز کے قتل پر اکسانے کے جرم میں سزا سنائی ہے۔
محمد اشرف جلالی اور سعد حسین رضوی دونوں پر انکی غیر حاضری میں مقدمہ چلایا گیا کیونکہ پاکستان نے ہالینڈ کی درخواست کے مطابق ان افراد کو ہائی سیکیورٹی ٹرائل میں پیش ہونے پر مجبور نہیں کیا۔
56 سالہ مذہبی رہنما جلالی کو اپنے پیروکاروں سے وائلڈرز کو قتل کرنے اور یہ وعدہ کرنے پر 14 سال کی سزا سنائی گئی ہے کہ انہیں “آخرت میں اس کا اجر دیا جائے گا۔”
تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) پارٹی کے رہنما 29 سالہ رضوی کو پاکستانی کرکٹر خالد لطیف کو ولڈرز کے قتل پر اکسانے کے جرم میں سزا سنائے جانے کے بعد، اپنے پیروکاروں کو وائلڈرز کو قتل کرنے پر زور دینے کے بعد چار سال قید کی سزا سنائی گئی۔
ستمبر 2023 میں، ججوں نے کرکٹر خالد لطیف کو اس وقت ولڈرز کے قتل کے لیے اشتعال انگیزی کے جرم میں 12 سال قید کی سزا سنائی تھی جب شعلہ بیان قانون ساز نے پیغمبر اسلام کے کارٹونوں کے مقابلے کا اہتمام کرنے کی کوشش کی تھی۔
ولڈرز نے 2018 میں پیغمبرِ اسلام کے خاکوں کا مقابلہ کرانے کا اعلان کیا تھا۔ جس کے بعد پاکستان میں شدید احتجاج اور گیرٹ کو قتل کرنے کی دھمکیاں دینے پر یہ مقابلہ منسوخ کر دیا گیا تھا۔
وائلڈرز کا فیصلے پر خوشی کا اظہار
اس فیصلے پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے، وائلڈرز نے X پر ایک پیغام میں کہا: “ان دونوں مجرموں کو فوری طور پر گرفتار کر کے قید کیا جانا چاہیے۔”
انہوں نے کہا کہ پیغمبر کے کارٹون بنانا اور دکھانا “آزادی اظہار” کا معاملہ ہے۔
انہوں نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے فیصلے کی تعریف کی۔
مقدمے پر ٹی ایل پی کا ردعمل
ہالینڈ کی عدالت میں زیرِ سماعت مقدمہ پر ٹی ایل پی نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ہالینڈ کی عدالت میں گیرٹ ولڈرز کے وکیل کی طرف سے پیش کیا گیا بیان جھوٹ پر مبنی اور خلافِ قانون ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ سزا تو گیرٹ ولڈرز کو ملنی چاہیے جس نے پیغمبرِ اسلام کی شان میں گستاخی کی ہے۔
ترجمان ٹی ایل پی کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان کی عدالت میں گیرٹ ولڈرز کے خلاف قانونی کارروائی کا آغاز کررہے ہیں۔ ضرورت پڑی تو عالمی عدالت بھی جائیں گے۔
تحریک لبیک پاکستان ایک سخت گیر مذہبی سیاسی جماعت سمجھی جاتی ہے جس پر ماضی میں بھی تشدد پر اکسانے کے الزامات عائد ہوتے رہے ہیں۔
گزشتہ ماہ ٹی ایل پی کے نائب امیر نے احمدی جماعت سے تعلق رکھنے والے ایک شخص مبارک ثانی کی ضمانت سے متعلق فیصلے پر ردعمل میں پاکستان کے موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کو قتل کرنے پر انعام کا اعلان کیا تھا۔
اس اعلان کے بعد وفاق اور پنجاب کی صوبائی حکومت نے اس بیان کی مذمت کی تھی اور کارروائی کا عندیہ دیا تھا۔ تاہم پولیس تاحال ٹی ایل پی کے مذکورہ رہنما کو گرفتار نہیں کر سکی ہے۔
سوال یہ ہے کہ آیا نیدرلینڈز میں عدالتی کارروائی کے بعد ٹی ایل پی کی قیادت کو پاکستان میں بھی مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے؟
ماہرین کیا کہتے ہیں؟
قانونی ماہرین کے نزدیک چوں کہ پاکستان اور نیدرلینڈز کے درمیان قیدیوں یا ملزمان کے تبادلے کا کوئی معاہدہ نہیں ہے اس لیے اس مقدمے کی کارروائی سے اس میں نامزد ملزمان کو کوئی قانونی پیچیدگی درپیش نہیں ہوگی۔
ماہرِ قانون اور سپریم کورٹ کے وکیل خالد اسحاق نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ہالینڈ میں گزشتہ چند برسوں میں ہونے والی قانونی ترامیم کے بعد دنیا کے کسی بھی خطے میں موجود کسی بھی ملک کے ایسے شہری کے خلاف مقدمہ چلایا جاسکتا ہے جس نے ہالینڈ کے قوانین کی خلاف ورزی کی ہو۔
اُن کا مزید کہنا تھا کہ اِن ترامیم کے بعد ہی ہالینڈ کی حکومت نے سعد حسین رضوی اور دیگر افراد کے خلاف مقدمہ شروع کیا ہے جسے وہ اپنے قانون کے مطابق چلا رہے ہیں۔
برطانیہ میں مقیم قانونی ماہر سولسٹر امجد ملک کے مطابق برطانیہ اور یورپی ممالک میں کسی دوسرے ملک میں بیٹھ کر اپنے شہریوں کے خلاف تشدد پر اکسانے والوں کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی روایت موجود ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ ایسا مقدمہ کسی بھی یورپی شہری کو جان سے مار دینے، اقدامِ قتل، قتل کرنے یا کسی بھی قسم کے تشدد پر اُکسانے کے خلاف درج کیا جا سکتا ہے۔
اُنہوں نے مزید کہا اگر کسی بھی ملزم کے خلاف عدالت سے غیر حاضری کے دوران مقدمہ چلایا جاتا ہے تو انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوں گے۔
تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر سعد حسین رضوی چاہیں تو نیدرلینڈز میں کسی بھی وکیل کے توسط سے اِس عدالتی کارروائی پر اعتراض اُٹھا سکتے ہیں۔
انہوں ںے بتایا کہ اگر سعد رضوی کے پاس نیدرلینڈز میں کوئی وکیل نہ ہو تو وہاں کی ریاست خود اِنہیں وکیل دینے کی پابند ہے۔
کیا سعد رضوی کو ہالینڈ کے حوالے کیا جا سکتا ہے؟
قانونی ماہر خالد اسحاق نے بتایا کہ پاکستان کا ہالینڈ کی حکومت کے ساتھ ملزمان کی حوالگی کا معاہدہ نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے سعد حسین رضوی کو ہالینڈ کی حکومت کے حوالے نہیں کیا جا سکتا۔
سابق سفیر عاقل ندیم کے مطابق ملزمان کی حوالگی کا معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں کسی شخص کو دوسرے ملک کے حوالے کرنے کے لیے انتہائی ٹھوس شواہد درکار ہوں گے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایسے کیسز میں دیکھا جاتا ہے کہ آیا ملزم نے کسی شخص کو کیسے اُکسایا؟ کیا ملزم نے واقعی کسی کو اُکسایا ہے یا ایسا کرنے کے لیے اُس نے کسی کو کوئی رقم ادا کی ہے۔ جس کے بعد ہی کوئی مضبوط کیس بن سکتا ہے۔
کیا ہالینڈ کا فیصلہ پاکستان میں نافذ ہو سکتا ہے؟
اس بارے میں قانونی اور سفارتی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کے لیے بھی دونوں ممالک میں قانونی کارروائی سے متعلق کوئی معاہدہ ہونا ضروری ہے۔
سپریم کورٹ کے وکیل خالد اسحاق کے مطابق اس کے لیے دونوں ریاستوں کے درمیان ریسی پروکل معاہدہ ہونا ضروری ہے۔ ایسا معاہدہ دونوں ملک مل کر کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان اور برطانیہ ریسی پروکل ریاستیں ہیں۔ اس لیے اگر کسی شخص کے خلاف برطانیہ کی عدالت کوئی فیصلہ دیتی ہے تو اسے پاکستان میں بھی نافذ کیا جا سکتا ہے۔
خالد اسحاق کے مطابق ہالینڈ کی عدالت کا فیصلہ پاکستان میں لاگو نہیں ہو گا اور سعد رضوی کے خلاف پاکستان میں بھی کوئی قانونی کارروائی شروع نہیں کی جاسکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہالینڈ یورپی یونین کا حصہ ہے اور وہاں کی عدالت اگر سعد رضوی کو سزا دے دیتی ہے تو اِن کی جماعت کو یورپ میں سرگرمیوں یا فنڈز وغیرہ جمع کرنے میں مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے۔