“بلوچستان وہ واحد خطہ ہے جہاں کی مائیں اپنے بیٹیوں کے بجائے بیٹوں کے بڑے ہونے پر غم میں مبتلا ہو جاتی ہیں
” یہ الفاظ سعید بلوچ کے ہیں جس نے گمشدگی سے کچھ دن پہلے اپنے فیس بُک سٹیٹس پہ لکھے ہیں.
دی بلوچستان پوسٹ ویب ڈیسک رپورٹ کے مطابقسعید بلوچ بلوچستان کے واحد میڈیکل کالج بولان میڈیکل کالج کوئٹہ میں فائنل ایئر کے ایک قابل اور ہونہار طالب علم بتائے جاتے ہیں. جسے گذشتہ دنوں اسکے کالج کے مین ہاسٹل سے اٹھا کر غائب کر دیا گیا جب وہ اپنے آنے والے امتحانات کی تیاریوں میں مصروف تھے.
سعید بلوچ بلوچستان کے ان سینکڑوں طلباء میں شامل ہو گئے ہیں جو دورانِ تعلیم کالجز یونیورسٹیز یا ہاسٹلز کے احاطے سے ہی دن دہاڑے یا آدھی رات کو وردی میں ملبوس مسلح فورسز یا سادہ ملبوس میں خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے عینی شاہدین کی موجودگی میں اٹھا کر غائب کیے گئے ہیں.
گذشتہ کئی سالوں سے جاری اس گمشدگیوں کے سلسلے میں کئی طلباء کے نام اب شاید گمشدہ لوگوں کی لسٹ سے اس لیئے ہٹا دیے گئے ہیں کہ انکی مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوئی ہیں.
سعید بلوچ دوسرے بلوچ طلباء کی طرح معمول کے مطابق زندگی گزار رہے تھے کسی سیاسی یا سماجی تنظیم سے ان کا کوئی تعلق تک بھی نہیں ہے.
سعید بلوچ کے فیملی کو بھی اسکی زندگی کے بارے میں یہ خطرہ لاحق ہوگا کہ کہیں اس کو بھی شہید کرکے لاش نا پھینکا جائے. بلوچستان میں بڑھتی ہوئی گمشدگیوں پر اقوام متحدہ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور انسانی حقوق کے ملکی اور بین الاقوامی اداروں کو چاہیے کہ وہ بھر پور انداز میں آواز اٹھائیں اور ریاستی اداروں کے ہاتھوں آئے روز ماورائے عدالت گمشدگیوں پر موثر اقدامات کریں. یہ انسانی حقوق کی ایک بد ترین خلاف ورزی ہے.