بلوچ نیشنل فرنٹ کی جانب سے آج کوئٹہ پریس کلب میں کوئٹہ آپریشن کے دوران سیاسی کارکنوں کے قتل، کوئٹہ آپریشن اورمکران و ڈیرہ بگٹی کے علاقوں میں جاری آپریشنوں کے حوالے سے پریس کانفرنس کیا گیا۔
پریس کانفرنس کے دوران بلوچ نیشنل فرنٹ کے رہنماؤں نے کہا کہ بلوچستان پاکستانی میڈیا کے لئے ایک ممنوعہ علاقہ ہے، یہاں خبریں تو روز بنتی ہیں لیکن چونکہ اُن کا تعلق ریاست کی بربریت سے ہے، اس لئے وہ ٹی وی چینلوں کے ذریعے عام لوگوں تک نہیں پہنچ پاتی ہیں۔ پاکستانی میڈیا کی ترجیحات اور بلوچستان کے حوالے سے ان کی عدم توجہی اس بات کو بارہا ثابت کررہی ہے کہ ریاست کے تمام اداروں بشمول میڈیا کے لئے بلوچستان ایک مفتوحہ علاقہ ہے، یہاں انسان نہیں بلکہ دوسرے، تیسرے درجے کے شہری رہتے ہیں، ان کی موت یا تکالیف کا تذکرہ کسی ٹاک شو یا نیوز بلیٹن میں کرنا احمقانہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچ نیشنل فرنٹ کے اتحادی جماعتوں سمیت بلوچستان میں پر امن سیاست پر یقین رکھنے والے دوسری پارٹیوں کے درجنوں زمہ دار و کارکن گرفتاری کے بعد لاپتہ کیے جا چکے ہیں، درجنوں کی لاشیں ملی ہیں۔ بے شمار اب بھی غائب ہیں۔ چو نکہ ہم عوام کے اندر رہ کر عوام کے لئے جدوجہد کررہے ہیں، اس لئے پاکستان کے کاروباری حکمرانوں، مقامی گماشتوں اور مفاد پرستوں کو ہم سے خطرات لاحق ہیں۔ آزادی پسند سیاسی کارکنوں کے خلاف معاشرے کے وہ تمام گروہ متحرک ہیں جن کے مفادات عوام کو غلام رکھنے اور بلوچ سرزمین پر قبضہ کی طوالت سے وابستہ ہیں۔ چائنا پاکستانی اکنامک کوریڈور ہو، گوادر میں زمینوں کا کاروبار، سیندک و ریکوڈک کے معدنیات ہوں یا کہ ساحل بلوچستان کے وسائل ہوں، یہ گروہ چاہتی ہے کہ وہ ان وسائل پر بدستور قابض رہے اور دوسرے ممالک کے کمپنیوں کو بلوچستان میں جائیدادیں و مراعات فراہم کرکے یہ لوگ اپنے لئے کرپشن کے مواقع پیدا کرنے چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان فوج اور مقامی گماشتوں کی ملی بھگت سے ایک ایسی قتل گاہ کی شکل اختیار کرچکا ہے کہ یہاں کے لوگ خود کو کسی طور پر محفوظ تصور نہیں کرتے ہیں۔ آئے روز کی چھاپوں، گرفتاریوں و دھمکیوں سے بلوچ عوام تنگ آ چکے ہیں۔ فورسز کے اہلکار نہ صرف دیہی علاقوں میں قتل عام کو اپنا حق سمجھتے ہیں بلکہ کوئٹہ سمیت دوسرے شہروں میں لوگوں کی چاردیواریوں میں گھسنے، خواتین کو تشدد کا نشانہ بنانے اور خاندان کے سامنے بزرگوں و نوجوانوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کو بھی اپنا حق سمجھتے ہیں۔ قتل عام کا ایک تسلسل ہے جو کہ رکنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ گزشتہ کئی دنوں سے کولواہ کے متعدد علاقے فورسز کے محاصرے میں ہیں، 29جولائی کو فورسز نے کولواہ میں آپریشن کے دوران چار بلوچ نوجوانوں کو قتل کردیا، قتل کیے جانے والے یہ نوجوان بی ایس او آزاد اور بی این ایم کے کارکن تھے جن کی شناخت شاکر شاد ولد یار محمد، صادق ولد سوبین،حاصل ولد یار محمد، اور مجید بلوچ کے نام سے ہوگئی۔ ان تمام نوجوانوں کی عمریں 17 اور 25 سال کے درمیان تھیں اور ان کا تعلق ایک ہی خاندان سے تھا۔بلوچستان میں ریاست کے فورسز ایسے نوجوانوں کو چن چن کر نشانہ بنا رہے ہیں جو کہ ترقی پسندانہ خیالات رکھتے ہیں۔ معاشرے کو روشن خیال نوجوانوں سے بے بہر کر کے ریاست بلوچستا ن کو جہالت اور مذہبی شدت پسندی کے لئے جنت بنانا چاہتی ہے۔ حالیہ دنوں کوئٹہ شہر کے بیشتر حصوں میں غیر اعلانیہ کرفیو نافذ کرکے فورسز نے ہزاروں گھروں میں گھس کر تلاشی لی، سینکڑوں لوگوں کو گرفتار کرلیا۔ بلوچستان کے تمام حصے یکساں طور پر ریاست کی بربریت کا شکار ہیں لیکن عالمی ادارے اور میڈیا اس صورت حال پر مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔
بی این ایف کے رہنماؤں نے کہا کہ بلوچ قومی تحریک کے خلاف ریاستی طاقت کا استعمال تحریک کو ختم نہیں کرسکتی البتہ بڑی تعداد میں بے گناہ انسانی جانوں کی ضیاع کا سبب بنتی ہے۔ یہ عالمی اداروں کی زمہ داری ہے کہ وہ بلوچستان کے سیاسی مسئلے کے پرامن حل کے لئے، لاپتہ افراد کی بازیابی اور قتل عام روکنے میں اپنا کردار ادا کریں۔