بابا مری بطور سیاسی فلاسفر اور بلوچ قومی مقدمہ
(پانچواں حصہ)
تحریر: مہر جان
دی بلوچستان پوسٹ
موجودہ ساری صورتحال کے پیش نظر گر پنجاب سے کوئی سارتر جیسا دانشور ابھر کر سامنے آتا ہے یا ایسا طبقہ جو محکوم اقوام کی آذادی کے لیے محکوم کے ساتھ عملی طور پہ شانہ بشانہ کھڑا ہو جو کہ مشکل ہے، کیونکہ معلوم تاریخ میں ایسی کوئ مثال نہیں ملتی بابا مری بھی اس حوالے سے خاصا مایوس تھے،اسی لیے وہ اپنی قوم و زمین و وطن کی سیاست کو بنیادی اور اہم سمجھتے تھے کہ بقول بابا مری ” انکے (پنچاب) نزدیک ہماری سیاست پنجاب کی تابعداری کی سکیم کے تحت آگے بڑھے گی” لیکن یاد رکھیں گر کوئ ایسا انہونی ہو جاتی ہے تو وہ تاریخی حرکیات میں محکوم کی آزادی سے بڑھ کر اپنے آنے والی نسلوں کی آزادی ہوگی جو حاکمیت و بربریت و مسلح فورسز کا بوجھ اتار کر انسانی برابری، عزت و انصاف جیسے اصولوں کی پاسداری تصور کی جائیگی، وگرنہ تاریخ کے کٹہرے میں پنچاب نوآبادیاتی حوالے سے ہمیشہ سر نگوں ہی رہیگا ، سارتر جسے ڈیگال نے فرانس کہا لیکن تاریخ کبھی بھی سارتر کی وجہ سے فرانس کو الجزائر پہ کیے گئے مظالم سے بری الذمہ نہیں ٹہراتا۔
پنجاب کے ایک مارکسی واد دانشور سے جب اس سلسلے میں بات ہوئ تو وہ برجستہ بولا کہ فرانس میں جنرل ڈیگال تھا جبکہ یہاں جنرل مشرف ہے ،وہ یہ کہنا شاید بھول گیا کہ جنرل مشرف فقط ایک فرد ہے جبکہ نوآبادیاتی نظام کی عمارت ایک فرد کے کندھوں سے بڑھ کر ریاستی اداروں کے ستونوں پہ کھڑی ہوتی ہے ، اور کسی بھی نوآبادیاتی ریاست کا سب سے بڑا ستون فوج ہے ، بقول بابا مری “میرے ناقص خیال میں فوج کسی ملک کی سلامتی کےلیے ہوتی ہے ،ستون نہیں ہوتی بلکہ انسانی برابری عزت اور انصاف ہی ستون تصور ہوتے ہیں ” لیکن نوآبادیاتی ریاست کی سب بڑی مجبوری یہی ہوتی ہے کہ وہ فوج کے دم پر قائم و دائم رہے اور دوسروں کے وسائل لوٹ کر اپنا کاروبار زندگی چلاتی رہے .
درحقیقت فوج نو آبادیاتی ریاست کی اسٹرکچر کا روح رواں ہوتی ہے ، وہ اپنے آپ یہ فرض کیا ہوتا ہے کہ چونکہ سب سے بڑی قربانی جان کی ہوتی ہے اس لیے وہ ریاست کے سیاہ و سفید کی مالک ہے ,ان سے بڑھ کر نہ کوئ محب وطن ہوتا ہے اور نہ ہی عقل کل ، جانوں کی قربانی سے ان کی انا کا مرض بڑھ جاتا ہے، سیاست کے میدان سے لے کر جنگ کی میدان تک وہی فیصلہ ساز ہوتے ہیں ، وہ کنک میکر کی طرح جسے چاہے میدان سیاست میں اتاریں یا پھر جسے چاہیں میدان سیاست سے غداری کا سرٹیفکٹ تھما کر فارغ کریں، رگسی کی جان مال عزت و آبرو ان کے لیے کوئ معنی نہیں رکھتی ،لیکن اپنی عزت ، توقیر و وقار کا پہاڑہ انہیں ہر روز پڑھایا جاتا ہے ، کہ آپکی تعظیم سے بڑھ کر کسی تعظیم نہیں ،آپ کے وقار سے بڑھ کر کسی کا وقار نہیں ، انکی توہین پوری رعایا کی توہین تصور ہوتی ہے ان کا احترام و بجا آوری پوری رعایا کی عزت بجاآواری ہوتی ہے وہ دفاعی معاملات سے لے کر سیاسی معاملات تک کا خودساختہ چیمپئن بنے ہوتے ہیں ، اس کے لیے تاریخ سے مثالیں تر اش تراش کر اپنے ہونے کا جواز ڈھونڈ تے ہیں بقول بابا مری ” ہم یہ نہیں چھوڑینگے ، ہم وہ نہیں چھوڑینگے ، ہم یہ کرینگے ، ہم وہ کرینگے” عقل سے چونکہ یہ لوگ بلکل فارغ ہوتے ہیں اس لیے جذبات کے سہارے اپنا الو سیدھا کررہے ہوتے ہیں ، پر یڈ ، ملی نغمے ، فلم و ڈرامے ان کا کل سرمایہ حیات ہوتے ہیں ۔ ان کے بڑوں میں رعونت ، زعم دانشوری بھری ہوتی ہے ، جس کے لئے کراۓ کے قاتل سے لے کر کراۓ کے لکھاری تک مامور کئے جاتے ہیں اپنی شہرت و ساکھ کی ان کو بہت فکر ہوتی ہے وہ مختلف ذرائع سے نہ صرف اپنی شہرت و ساکھ کا ڈھول بجاتے رہتے ہیں بلکہ وقتا فوقتا اپنی شہرت کے حوالے سے سروے بھی کرتےرہتے ہیں اور اس حوالے سے سوشل میڈیا پہ ان گنت اکاؤنٹس کھولے ہوتے ہیں، ان کے سپہ سالار کو مختلف القابات سے نوازا جاتا ہے ، جن سے ان کی نرگسیت سر چڑھ کر بولتی ہے ، اسی ذہنیت کےتحت یہ لوگ پھل پھو ل رہے ہوتے ہیں ۔وہ سیاسیات سے لے کر اقتصادیات تک اور ساحل سے لے کر وسائل تک بندوق کی نوک پہ حکمرانی کررہے ہوتے ہیں ، اور ہمیشہ بندوق کے زور پہ سیاسی معاملات پہ آخری فیصلہ انہی کا ہوتا ہے۔
اسی طرح اس مقدس گاۓ نے مذہب کا چوغہ بھی نہ صرف بڑی چالاکی سے پہنا ہوا ہے بلکہ مذہبیت کو نیچے لیول تک فروغ دی ہے ، تاکہ مذہبی ذہن پیدا کرکے اپنے وحشیانہ عمل کو جواز دے سکے ۔ ،ہندو مسلم تضاد کو ابھار کر اپنے آپ کو اسلامی دنیا کی فوج گردانتی ہے ، غزوہ ہند کا حوالے دے دے کر اور مختلف روایات کو توڑ مروڑ کر ہندوستان کو فتح کرنے کا خواب بھی دیکھتی ہے ، سادہ لوح مسلمان اس کو ہمیشہ مذہب کے لبادے میں اوڑھا دیکھ کر اس کی تقدیس بجا آوری کرتے ہیں ، لیکن وہ بھول جاتے ہیں کہ یہی مقدس گاۓ تاریخ میں بیت المقدس پہ بھی حملہ آور ہوئ ، یہ مقدس گاۓ کبھی مجاہدین کےوارث بنتی ہے توکبھی انہی مجاہدین کو ڈالرز کےعوض بیج کر اپنے توپ و ٹینک و بارود کے ڈھیر میں اضافہ کرتی ہے ، وہ ڈالر و ریال کا کھیل مذہب کے نام پہ کھیل کر دراصل سامراج کی چوکیداری کررہی ہوتی ہے ، یہ مذہب کو بطورہتھیار معتوب اقوام بلوچ نسل کشی کے لیے منظم طریقے سے استعمال کررہی ہے ، بلوچ قومی مزاحمت کو کاؤنٹر کرنے کے لیے مذہبی شدت پسندی کو بلوچ سماج میں انجیکٹ کررہا ہے ، جس کے لیے بڑے بڑے مافیاز ، لشکر پراہویٹ آرمی کی صورت مسلح دفاع کونسل کے نام سے پالے ہوۓ ہیں ،جن کے سرغنہ سے لے کر مسلح افراد تک کےلیے باقاعدہ نہ صرف تنخواہیں مقرر ہیں بلکہ اغواہ براۓ تاوان سے لے کر منشیات ،اسمگلنگ ، قتل و غارتگری کی کھلی چوٹ دی گئ ہے , یہ مافیاز بلوچستان میں مذہب و پاکستانیت کے نام پہ کھلی دہشت گردی کررہے ہوتے ہیں، یہاں تک کہ بلوچ قوم کی منظم نسل کشی کرکے اجتماعی قبرستان آباد کیے گئے ہیں ، یہ مقدس گاۓ اپنی تقدیس کو دین و مذہب کے ساتھ جوڑ کرایک ڈراونا مقدس سانڈ بن جاتی ہے گویا ان سے بغاوت اسلام سے بغاوت ہے ، جس کی سزا مرتد کی طرح موت مقرر ہے ، وہ جب لاشوں کو مسخ کرکے ویرانوں میں پھینگتے ہیں تو وہ یہ سوچ رہے ہوتے ہیں کہ وہ پاکستان کے ساتھ ساتھ اسلام کا بھی خدمت کررہے ہیں اس کے لیے بلوچ کی لاشوں بقول بابا مری ” ہیلی کاپٹروں کے ذریعے نیچے پھینک رہے ہوتے ہیں” آزادد ریاستوں کی فوج ہوا کرتی ہے لیکن نوآبادیاتی ریاستوں میں اقتصاد، سیاست ، زمین اور مذہب فوج کی ہوا کرتی ہے ۔
اس نوآبادیاتی ریاست کو قائم و دائم رکھنے کے لئے اور بلوچ قوم کے ساحل و وسائل پہ قبضہ برقرار رکھنے کے لیے فوج کی اہمیت مذہب کے علاوہ نام نہاد جمہوری اداروں ، عدلیہ و پارلیمنٹ میں بھی برقرار ہے ،بقول بابا مری نہ صرف ان سے “وہ اپنی آمریت کو قانونی جواز دینا ہے” بلکہ انہی کے لبادے میں انکی معیشت ، سیاست کا کاروبار چل رہا ہے ، بابا مری کے الفاظ میں ” منافقت کی داستان بہت طویل ہے نظریاتی طور پر ملٹری ڈکٹیٹر شپ کے تابع ووٹ کاسٹنگ کو ڈیموکریسی کہنا بہت بڑا گناہ ، کمزوری یا نادانی ہے” منافقت کی اس طویل داستان میں فوج اور اقتصادیات کے گٹھ جوڑ پہ بابا مری تاریخ کا حوالہ کچھ یوں پیش کرتے ہیں کہ ” دنیا میں ایسی افواج بھی تھیں یا اب بھی ہیں جو دوسروں کو لوٹ کر اپنی اقتصادیات اور مالی قوت بڑھانے کا ہنر سیکھ لیتی ہیں تو معیشت کے کچھ حصے کو ترقی دینے کے لیے ماہر اور عالموں کو باہر سے لاکر ان سے کام لیتی ہیں” دراصل ترقی کے نام پہ چھاؤنیاں بنانے کا ہنر کوئ ان سے سیکھے، بابا مری کا یہ سوال کہ “ہم پوچھتے ہیں کہ بلوچستان میں چھاؤنی کس لیے بنارہے ہو ،ہندوستان کی فوج کے خلاف ،یا ایرانی فوج کے خلاف ۔ یا ان کے خلاف جو کہتے ہیں کہ یہ ہمارا وطن ہے جن کے تیل چھیننے کے لیے یہ چھاؤنیاں بن رہی ہیں ؟” آج گوادار اس کی بہترین مثال ہے جسے چاروں طرف سے باڑ لگا کر وہاں زمین زادوں کو ریڈ انڈینز کی طرح بے دخل کیا جارہا ہے۔ نو آبادیاتی ریاست کی آج کے دور میں ایک خاصیت یہ بھی ہوتی کہ وئاں مرئ و غیر مرئ (visible /invisible)باڑ ایک انڈسٹری کی شکل اختیار کرتی ہے قابض نے نہ صرف گوادر میں بلکہ پوری گل زمین میں جہاں جہاں قابض نے مورچے بناۓ ہیں وہاں گل زمین کے سینے کو چیر کر اردگرد باڑ لگائی جارہی ہے حتی کہ مصنوعی بارڈرز میک موہن سے لے کر گولڈ اسمتھ لاہن تک باڑ لگانے کا سلسہ جاری ہے ,اسی طرح قابض کا سول سوساہٹی غیر مرئ invisible باڑ ذہنوں پہ لگا رہی ہے ، گوادار کا مسئلہ بقول بابا مری “عالمی سامراجی غلبہ اور مفادات کا ہے” بڑے بڑے ٹینک توپ و چیک پوسٹس ، مورچوں کا قیام انہی سامراجی غلبہ و مفادات کی جیتی جاگتی تصاویر ہیں۔ جو بلوچ کے ساحل و وسائل و زمین پہ قابض ہیں۔، انہی ساحل وسائل سے نہ صرف وہ اپنا پیٹ اور بینک اکاؤنٹس جی بھر کر بھرتے ہیں بلکہ کاروبار سیاست کو بھی چلارہے ہوتے ہیں، جمہوریت ، آئین و عدلیہ، قانون کی اوقات انکے سامنے لونڈی سے بڑھ کر نہیں ہوتی ۔اب بلوچ اگر اس لونڈی کا دامن پکڑ کر جمہوریت کی بالادستی ،سول سپریمیسی ،جیسے نماہشی نعرے لگا کر یا اس بڑھ کر مسنگ پرسنز کو انہی نوآبادیاتی ریاست کے اداروں سے انصاف کی بھیک یا مظلومیت کے نام پہ نیشنل ازم کا پرچار کریں تو اس چیز کوسمجھنے کی ضرورت ہے کہ اپنے اس بیانیہ سے بقول بابا مری “کیا وہ بلوچیت کے نام پہ بلوچ کو بلوچ سے دور تو نہیں کررہا ؟”
(جاری ہے)
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔