دکی کوئلہ کانوں کی حفاظت، پاکستانی فورسز کا مسلح گروہ تشکیل دینے کا فیصلہ

598

دکی میں پاکستانی فورسز نے مقامی افراد پر مشتمل مسلح گروہ تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

بلوچستان کے ضلع دکی میں کانکنی کرنے والے سات افراد کے مبینہ اغواء کے بعد کول مائنز کمیٹی کا اجلاس گذشتہ روز ایف سی چھاؤنی دکی میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں پاکستانی فوج کے افسران، کول مائنز اونرز اور آل پاکستان مائنز اینڈ منرلز ایسوسی ایشن کے صوبائی اور ضلعی رہنماوؤں سمیت قبائلی رہنماؤں اور سرداروں نے شرکت کی۔

اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ بائیس مارچ کو مبینہ طور پر اغواء ہونے والے سات کوئلہ کانکنوں اور اس سے قبل پیش آنے والے واقعات کی تدارک کے لئے مسلح گروہ تشکیل دیا جائے گا جو پاکستانی فورسز کے ساتھ ملکر کول مائنز کی حفاظت یقینی بنائے گی اور اسکے علاوہ ہر پیٹی ٹھیکیدار سمیت ہر کان مالک اپنے ہالج پر ایک پرائیوٹ سیکورٹی اہلکار تعینات کرکے سرچ لائٹ کو یقینی بنائیگا۔

اجلاس کے شرکاء نے متفقہ فیصلہ کیا کہ دکی کے امن وامان اور مائننگ کی سیکورٹی کو کسی بھی صورت خراب نہیں ہونے دیا جائیگا۔

اجلاس کے شرکاء نے کول مائنز لیبر کو یقین دہانی کروائی کہ لیبر کو ہر قسم کی حفاظت فراہم کرنا ہمارا اولین فرض ہے جس پر کسی صورت کمپرومائز نہیں کی جائیگی،۔اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ کول مائنز پر کام کرنے والے تمام لیبر کسی بھی خطرے کی صورت میں فوری طور پر فورسز کو بروقت مطلع کرینگے۔

پاکستانی فورسز فرنٹیئر کور اور چند قبائلی ذمہ داروں کی جانب سے اس فیصلے بعد بلوچستان کے پشتون سیاسی قوم پرست کارکنان کا کہنا ہے کہ دُکی میں چند لوگ بدامنی پھیلا کر کوئلہ کانکنان کو تاوان کے لئے اغواء کرکے کوئلہ کان مالکان کو دھمکاتے ہیں اب وہی افراد ایف سی کے ساتھ ملکر ایک مسلح لشکر دے رہیں۔

بلوچ سیاسی و سماجی حلقوں کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے مختلف اضلاع میں پاکستانی خفیہ ادارے اور فورسز مسلح گروہ تشکیل دے چکے ہیں جنہیں مقامی طور پر ڈیتھ اسکواڈز کے نام سے جانا جاتا ہے۔ پاکستانی فورسز ان گروہوں کو بلوچستان میں سیاسی کارکنان کی اغواء، ٹارگٹ کلنگ و جبری گمشدگیوں کیلئے استعمال کرتے ہیں۔

مذکورہ حلقوں کا کہنا ہے کہ ڈیتھ اسکواڈز کی مالی ضروریات پوری کرنے کیلئے فورسز و خفیہ ادارے انہیں چوری، ڈکیٹی، اغواء برائے تاوان، منشیات کے کاروبار جیسے معاشرتی برائیوں کی اجازت دی ہے۔

خیال رہے بلوچستان کے کوئلہ کانوں سے ایک بڑی رقم پاکستانی فورسز فرنٹیئر کور کو سیکورٹی دینے کے حوالے سے جاتی ہے جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔

سال 2019 میں ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ جاری کرتے ہوئے بتایا کہ ایچ آر سی پی مشن کو پتہ چلا کہ بلوچستان میں سیکیورٹی فورسز فی ٹن پیداوار پر سیکیورٹی محصول وصول کرتی ہیں جوسرکاری طورپرلاگو نہیں ہے اور کانوں کے مالکان اور مزدور یونینوں کی نظرمیں یہ بھتہ ہے۔