بلوچستان میں داعش کے فعال کیمپوں کی موجودگی تشویشناک ہے۔ ڈاکٹر نسیم بلوچ

599

بلوچ نیشنل موومنٹ کے جاری بیان کے مطابق پارٹی چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ نے بلوچ ہیومن رائٹس کونسل کے ضمنی پروگرام میں بعنوان ’’پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی: بلوچستان ان فوکس‘‘ میں شرکت کی۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر نسیم بلوچ نے بلوچستان کی تشویشناک صورتحال پر روشنی ڈالی اور اس کی وجہ پاکستانی ریاست کے قبضے کے خلاف جائز مزاحمت کے ردعمل کو قرار دیا۔ انھوں نے زور دے کر کہا، ’’ افسوس کی بات ہے کہ بلوچستان پر پاکستان کے قبضے کے خلاف ہماری جائز مزاحمت کے جواب میں پاکستانی ریاست نے ہمارے برحق مقصد کو دبانے کے لیے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سہارا لیا ہے۔ اس لیے بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بنیادی وجوہات کو سمجھنا ضروری ہے۔ ‘‘

تاریخی تناظر پر روشنی ڈالتے ہوئے انھوں نے 76 سال قبل پاکستانی فوج کے بلوچستان پر حملے کا ذکر کیا، انھوں نے کہا 76 سال قبل اسی دن پاکستانی فوج نے بھرپور فوجی طاقت کے ساتھ بلوچستان پر حملہ کرکے بلوچ سرزمین پر جبری قبضہ کر لیا۔ 27 مارچ گزشتہ 76 سالوں سے یوم سیاہ کے طور پر منایا جاتا ہے، یہ تاریخ کا ایک اہم موڑ ہے۔ بلوچستان کی تاریخ ہمیں نا صرف ایک تاریک باب کی یاد دلاتی ہے بلکہ ہماری جدوجہد آزادی کے شعلوں کو بھی جلا بخشتی ہے۔1948 میں اسی دن پاکستان نے بین الاقوامی قانون کو نظر انداز کرتے ہوئے آزاد بلوچستان پر زبردستی قبضہ کرکے ہمارے آزادی کے خواب کو چکنا چور کردیا۔

اپنے خطاب کو جاری رکھتے ہوئے، انھوں نے بلوچستان کی آزادی اور اس کے بعد پاکستان کے قبضے کے تاریخی پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ہمیں تاریخی ریکارڈ کو کبھی نہیں بھولنا چاہیے۔ 11 اگست 1947 کو برصغیر سے برطانوی انخلاء کے بعد بلوچستان نے اپنی آزادی کا اعلان کیا۔ تاریخی معاہدوں کی وجہ سے بلوچستان کا برطانیہ سے تعلقات قائم ہوئے، جس نے ان معاہدوں کی بنیاد پر بلوچستان کی آزادی کو تسلیم کیا۔ نئی آزادی پانے کے بعد بلوچستان میں پارلیمانی نظام قائم ہوا ، جب پاکستان نے الحاق کی پیشکش کی تو بلوچ پارلیمنٹ کے ایوان بالا اور ایوان زیریں نے متفقہ طور پر اسے مسترد کر دیا۔تاہم پاکستان نے بلوچ قوم کی مرضی اور ان کی خود مختار ریاست کو نظر انداز کرتے ہوئے بلوچستان پر قبضہ کر لیا۔حالیہ برسوں میں برطانیہ نے بلوچستان پاکستان کے قبضے میں اپنے کردار کو تسلیم کیا ہے، جارحیت کے اس عمل نے بلوچستان کو اس کی جائز آزادی سے محروم کر دیا۔”

بلوچ قوم کی طرف سے برداشت کیے جانے والے دائمی مصائب اور جبر پر روشنی ڈالتے ہوئے، چیئرمین بی این ایم نے پاکستانی ریاست کی مسلسل ظالمانہ کارروائیوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’’ اس منحوس دن کے بعد سے، بلوچستان کو پاکستانی ریاست کی طرف سے مسلسل ظلم و ستم کا سامنا ہے۔ یہ مظالم تباہ کن ہیں: لوگوں کے اہل خانہ بغیر کسی سراغ کے غائب ہو جاتے ہیں، خاندان بکھر جاتے ہیں۔ اور ہمارے قیمتی وسائل کو پاکستان کی معیشت کو ہوا دینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، جس سے ہمارے لوگ غربت کی چکی میں پھنس رہے ہیں۔ مزید یہ کہ پاکستانی ریاست منظم طریقے سے ہماری زبان، ثقافت اور شناخت کو مٹانے کی کوشش کر رہی ہے۔‘‘

’’یہ صرف الفاظ نہیں ہیں، یہ ہمارے دلوں میں کھدے ہوئے گہرے زخم ہیں جو بلوچ قوم کو نسل در نسل منتقل ہوئے ہیں۔ بلوچستان میں جاری مصائب اور جبر پاکستان کی ظالمانہ حکمرانی اور قبضے کا براہ راست نتیجہ ہیں، اس کے باوجود بلوچ قوم بہادری کے ساتھ اس جبر کے سامنے کھڑی ہے۔ ہماری مزاحمتی تحریک جس کی جڑیں سیکولرازم، صنفی مساوات اور عالمی انسانی حقوق کے اصولوں پر ہیں، آزادی کے لیے عالمی جنگ میں ایک قابل ذکر اور متاثر کن حیثیت رکھتی ہے۔‘‘

بلوچستان کی صورتحال کے عالمی مضمرات کی طرف توجہ مبذول کرواتے ہوئے ڈاکٹر نسیم بلوچ نے بین الاقوامی آگاہی اور تعاون کی ضرورت پر زور دیا۔ انھوں نے کہا، ’’ مظالم کا سامنا کرنے کے باوجود، بلوچ عوام اپنی ثابت قدم مزاحمت کے ذریعے پہلے ہی انسانی حقوق کی عالمی جدوجہد میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ذرا سوچئے کہ ایک آزاد بلوچستان کیا مثبت اثر ڈال سکتا ہے۔ ہمارا اسٹریٹجک محل وقوع، گہری ثقافتی جڑیں اور تاریخ۔ سیکولر اقدار کے لیے لگن ہمیں بین الاقوامی برادری میں ایک قابل قدر شراکت دار کی حیثیت دیتی ہے۔ آزاد بلوچستان علاقائی استحکام کو فروغ دے سکتا ہے، پائیدار ترقی کو آگے بڑھا سکتا ہے اور امن اور اتحاد سے بھرے مستقبل کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔‘‘

انھوں نے بلوچستان میں بین الاقوامی دہشت گرد تنظیم داعش کے کیمپوں کی موجودگی پر بھی تشویش کا اظہار کیا، جنھیں پاکستانی فوج کی براہ راست حمایت حاصل ہے۔ انھوں نے سوال کیا، ’’ بلوچستان میں بین الاقوامی دہشت گرد تنظیم داعش کے کیمپ فعال ہیں، اور وہ پاکستانی فوج کی براہ راست نگرانی اور مدد سے کام کرتے ہیں۔ اس فوجی قوت کا انتہا پسند مذہبی عقائد کے ساتھ گہرا تعلق ہے اور بلوچستان میں انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی کر رہی ہے۔یہ پوچھنا بہت ضروری ہے کہ کیا دنیا کو یہ احساس ہے کہ بنگلہ دیش میں 200,000 خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی اور تیس لاکھ بنگالیوں کے قتل کی ذمہ دار وہی پاکستانی فوج ہے؟ ، آج ہم بلوچستان میں جو مظالم دیکھ رہے ہیں وہ بنگلہ دیش میں اس فوج کے خوفناک اقدامات کی عکاسی کرتے ہیں۔ ‘‘

اپنی تقریر کے اختتام پر انھوں نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ آپ بلوچ قومی جدوجہد کی حمایت کرتے ہوئے ہمارا ساتھ دیں۔ ہم مل کر ایک ایسے مستقبل کی طرف بڑھ سکتے ہیں جہاں ہر بلوچ اپنی زندگی میں امن اور وقار کا مالک ہو۔