بابا مری بطور سیاسی فلاسفر اور بلوچ قومی مقدمہ (حصہ دوئم) – مہر جان

349

بابا مری بطور سیاسی فلاسفر اور بلوچ قومی مقدمہ

تحریر: مہر جان

دی بلوچستان پوسٹ

بابا مری انسانی اقدار کی کُلیت سے واقف تھے اور تمام جُزئیات کی اہمیت کو جانتے ہوۓ قومی آزادی سے پوری انسانیت کی آزادی کی بات کرتے تھے ، اسی طرح وہ اپنی قدر و قیمت سے بھی آشنا تھے ، وہ سقراط کے قول کی طرح اپنے آپ کو جانتے تھے ، تب ہی تو وہ کسی بھی جُز وقتی لہر ، سستی شہرت ، مصنوعیت کے نہ دام فریب میں آۓ اور نہ ہی نظریاتی ملاوٹ کا شکار رہے، کہ سرد و گرم بیک وقت ایک منہ میں سمالے ،وہ فکری حد بندی کے سخت قاہل تھے، وہ بے صبر نہیں تھے بقول بابا مری جیسا کہ ان کے بیٹے کسی زمانے میں سمجھتے تھے کہ وہ اڑنا چاہتے ہیں لیکن انہیں اڑنے کا شوق نہ تھا ، وہ ایک سیاسی فلاسفر کی طرح لمحوں کی وسعت کے بجاۓ تاریخ کی جدلیات میں سیاسی واقعات کو تسلسل اور ان کی اثر انگیزی کے تناظر میں دیکھتے تھے ، وہ سیاسی و جنگی محاذ پہ واقعات کو نہ سطحی انداز سے دیکھتے تھے اور نہ ہی واقعات کو اس قدر گلوریفائ کرنے کے حق میں تھے کہ جہاں سچ اور جھوٹ ، سیاسی پروپیگنڈا و شور و غل میں فرق ہی نظر نہ آۓ، اس لیے اس کی فکری بالیدگی اس قدر عروج پر تھی کہ سیاسی گروہ بندی، سیاسی ایڈہاک ازم ، سیاسی مہم جوئی اسے چھو کر بھی نہیں گذری۰ وہ اس بات پہ یقین رکھتے تھے ” سیاست میں میں مہم جوئ کی کوئ منزل نہیں ہوتی” نہ ہی آزادی کے اس سفر میں “انفرادیت ، گروہ بندی ،قباہلیت ،انا ، لالچ ساتھ ساتھ چل سکتی ہیں” وہ کسی بھی سماج میں اسے ایک المیہ سے کم قرار نہیں دیتا تھا کہ جس سماج میں “ناموری بھی ملے اور شو بازی بھی ہو” بقول مختار حسین “وہ نمود اور بپلسٹی سے دور بھاگتے ہیں”، بڑے سے بڑا مجمع اسے متاثر نہ کر سکا ، آہنسکو کے الفاظ کی روشنی میں اگر دیکھا جاۓ تو وہ ایک ایسا فلسفی دانشور تھے جس کا اخلاقی کردار اس قدر بلند تھا کہ اسے کبھی بھی اسٹیج کی ضرورت نہیں پڑی ، جس کو ہائیڈگر کی زبان میں اتینٹک بی اینگ( authentic Being )یعنی معتبر/مستند وجود کہا جاتا ہے .

انہوں نے وجود و آزادی کے احترام میں بڑے بڑے عہدوں کو خاطر میں نہیں لایا، بے نظیر بھٹو کو بغیر پیشگی اطلاع کے آنا پڑا، کیونکہ وہ جانتی تھی ملاقات کے لیے بابامری شاہد مانیں گے نہیں اور بلوچی روایات کے مطابق گھر آۓ ہوۓ مہمان کو دروازے سے واپس نہیں کریں گے ،،امریکن قونصلیٹ جو پاکستان جیسے ممالک میں طاقت کا محور سمجھا جاتا ہے، جب وہ بابا مری سے ملنے اۓ ، ملاقات کے بعد یہ کہنے پہ مجبور ہوا ، یہ تو کھل کر بولتا بھی نہیں ہے، مکران کے کسی علاقے میں ایک بہت بڑا سیاسی جلسہ تھا جس پہ بابا مری کو کہا گیا کراچی سے ٹیلیفونک خطاب کریں وہ معصومیت سے انکار کرکے گویا ہوۓ کہ آخر میرے پاس کونسی باتیں ہیں جو میں اجتماع سے کہوں؟ اسی طرح انٹرویوز کے دوران فلسفیانہ انداز میں کہتے تھے “کہ میں نہیں سمجھتا کہ اس (میری باتوں) سے لوگوں کو کچھ فائدہ ہوگا” ہوسکتا ہے یہ باتیں جدید دور کے لکھاریوں ،تعلیم زدہ دانشوروں اور پروفیسرز کے لیے رجعت پسندی ہو لیکن بابا مری چند گنے چُنے افراد کے ساتھ حق توار اسٹڈی سرکل میں بلوچ گلزمین کے لیے مزاحمت کا بیج بوتا رہا ، اور ذہن کے لہو سے زیر زمین رہ کر اپنے فکرو عمل سے اسے سیراب کرتا رہا ، نیطشے کے الفاظ میں آخر کار ان کی تنہائی (جو بلوچ گلزمین ، قوم ، تاریخ اور روایات اور آزادی تک کا احاطہ کیے ہوئے تھا) ان کی طاقت بنی ،وہ طاقت کے اس راز سے واقف تھا جو رابرٹ گرین نے طاقت کے چوتھے اصول کے طور پہ متعارف کرایا” ضرورت سے کم بولنا آپ کی طاقت ہے” بلوچ قومی مزاحمت کا یہ پانچواں مرحلہ اسی بیج کی مرہون منت ہے ، کیونکہ حق توار اسٹڈی سرکل سے بقول ان کے “میری کوشش تھی کہ چار بلوچ بیٹھیں، بحث مباحثے کے ذریعے بلوچ قومی مسئلے کو سمجھ سکیں، اس طرح میں بلوچوں کے ذہنوں میں ان کے واک و اختیار کے سوال اور عملی جدوجہد کی فکر کو ڈال سکوں اور چار بلوچ میری بات کو سمجھ کر بلوچ قومی آذادی کی جدوجہد کیلیےکمر ہمت باندھ لیں” انہوں نے بلوچ قوم کی آزادی کو عقلی تقاضا سمجھ کر جہد سے جوڑا، پونم (بلوچستان میں پارلیمانی جماعتوں کا اتحاد)کے شور غل کے بجاۓ اپنی صلاحیتوں کا اظہار ہی ریشنل انداز سے کیا، یوں اس کا ہر عمل شعور سے ہوکر گذرتا تھا جب وہ بول رہے ہوتے تھے، توایسا لگتا تھا کہ وہ سوچ رہے ہوں ، گویا وہ زہن میں زبان رکھتے تھے ، اسے اپنے الفاظ کے انتخاب پہ اس قدر عبور تھا کہ ہاروکی مورکامی کے ایک کردار کی طرح “بعض اوقات وہ ایسی بات کرتے تھے جیسے اپنے خیالات کو بیان کرنے کے لیے موزوں الفاظ تلاش کررہے ہوں” اور بعض اوقات انکی خاموشی بھی کسی جنگ سے کم نہ تھی . انکی شخصیت میں ایک خاص قسم کا ٹہراؤ تھا۔

بابا مری نے نام نہاد ہیومنسٹ یا انسانی حقوق کی چیمپیئن بننے کی کبھی کوشش نہیں کی اور نہ ہی وہ اس حوالے سے خیالی گھوڑے دوڑاتے تھے، بلکہ وہ ایک حقیقی سیاسی فلاسفر کی طرح سامراج کی پالیسیوں میں موجود انسانیت سوز عناصر اور اس کی داخلی تضادات کا ادراک رکھتے تھے، وہ اس امر سے بخوبی آگاہ تھے کہ یورپ نے انسان کو مرکز تو بنایا لیکن بقول سارتر “انہیں جہاں کہیں بھی انسان نظر آیا اسے قتل کیا” آج کے دور میں بھی انسانی آزادیوں کے حوالے سے فرانس کی صورتحال پہ بابا مری غیر مطمئن تھے، ریاست پاکستان کو سامراج کا پٹھو قرار دے کر اس بات پہ قوی یقین رکھتے تھے کہ “سامراج کی سرپرستی کے بغیر بلوچ کو زیردست نہیں رکھا جاسکتا” امریکہ کے حوالے سے وہ ایک قول دہراتے ہیں کہ “امریکہ کو سب سے زیادہ ڈر جمہوریت سے ہے” اور ان کے بقول ایسا کبھی دنیا نےنہیں دیکھا کہ امریکہ کسی محکوم قوم کی آذادی کے لیے موثر کردار ادا کی ہو، اقوام متحدہ کو وہ اس حوالے سے امریکہ کا تنخواہ دار سمجھتے تھے ،اور اس امر سے بخوبی آگاہ تھے کہ آج امریکہ اور اسکی ملٹی نیشنل کمپنیاں ، اقوام کی تہذیب ، کلچر و روایات میں رکاوٹیں ڈال کر ان کی تجارت پہ قابض ہورہی ہیں ، وہ میلان کندیرا کی اس بات کو درست سمجھتے تھے کہ “جدید دنیا کے ادارے انسانی مفادات کے بجاۓ طاقت کے مفادات سے تعلق رکھتے ہیں، ” اس حوالے جب ان سے پوچھاگیا کہ بلوچستان میں جاری ریاست کے جنگی جرائم کو اگراقوام متحدہ میں پیش کیا جاے تو کیا یہ زیادہ درست فیصلہ نہیں ہوگا ؟ تو انہوں نے برملا کہا کہ اقوام متحدہ پہ انہیں یقین نہیں ہے ہاں البتہ وہاں بلوچ قوم کے مقدمے کا تبلیغ ضرور ہوگی ، وہ اس حوالے سے نیطشین فلسفے کے زیادہ قریب تھے اور چاہتے تھے کہ بلوچ کو اپنی قوت بازو پہ بھروسہ کرنے کی ضرورت ھے۔ویسے بھی گر دیکھا جاۓ آج حقیقی دنیا میں طاقت کو معنویت پر فوقیت حاصل ہوچکی ہے ،عراق سے لےکر فلسطین تک کے لیے لاکھوں کی تعداد میں مظاہرے و احتجاج ہوے لیکن امریکہ سمیت یورپ کے لیے اپنے جانوروں کے حقوق کالوناہزڈ اقوام کے انسانوں کے مقابلے میں زیادہ اہمیت کے حامل ہے اور انکی اپنی پوری تاریخ کالونائزیشن کی تاریخ ہے۔

اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ کالوناہز ڈ کے لیے بے شک انسانی حقوق کی تبلیغ سے ایک بنیادی مقدمہ سامنے آتا ہے، لیکن آذادی کی جنگ کا بنیادی کردار بیانیے کے ساتھ ساتھ میدان جنگ میں بھی اترنا ایک عقلی اور ضروری فعل ہوتا ہے، تاکہ طاقت اور معنویت (سچائ)میں طاقت کو فوقیت ملنے کی بجاۓ طاقت و معنویت کی قربت بڑھ سکے، اس قربت کو بڑھانے میں بقول ایلن بدایو کے فلاسفر کا کردار زیادہ اہم ہوتا ہے ، جہاں تک بنیادی مقدمے کی تبلیغ کی بات ہے تو کالوناہزر کے ساتھ “ہم آہنگی” کے بجاۓ اس کے لیے عالمی سطح پر موثر سفارتکاری کے ساتھ ساتھ کالوناہزر و کالوناہز ڈ کی “بنیادی تضاد “کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بقول ماؤ حقیقی دوست اور حقیقی دشمن کا تعین ہوسکے ،آج ریاست پاکستان میں انسانی حقوق کے دعویدار جو اپنے اپنے طور پہ پاکستان جیسی سامراجی ریاست کی سالمیت پہ یقین رکھتے ہیں وہ کبھی بھی بقول بابا مری “انسانی حقوق کا علمبردار نہیں ہوسکتے” اس حوالے سے بابا مری کبرال کا وہ واقعہ یاد کرتے ہیں کہ جب ان سے کچھ نوآبادیاتی صحافی حضرات احسان جتلاتے ہوۓ پوچھتے ہیں کہ ہم بھی آپ لوگوں کے لئے کچھ نہ کچھ لکھ رہے ہوتے ہیں جس پہ کبرال کہتا ہے جب ہمیں آزادی ملی تو آپ کے چار آرٹیکل کے بدلے میں ہم آپ لوگوں کے لئے آٹھ آرٹیکل لکھیں گے، اس لیے یہ سمجھنا اشد لازمی ہے کہ آج پاکستانی نوآبادیاتی ریاستی دانشور چاہے انکا تعلق بائیں بازو سے ہو یا دائیں بازو سے ہو ، یا پھر انسانی حقوق کے علمبردار ہو ، یا آہین ،قانون کا دعویدار ہو ، وہ کبھی بھی بلوچ کے ساتھ ہمدردی انسانیت کے نام پہ نہیں بلکہ اس خدشہ کے بناہ پہ کرتا ہے کہ کہیں دوسرا بنگلہ دیش نہ بن جاے ، وہ اپنی نسلوں کا سوچتا ہے جن کا مستقبل پاکستان ، پاکستانیت میں محفوظ ہے۔

(جاری ہے )


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔