بھارت میں شہریت کے متنازع قانون کے نفاذ کا اعلان

128

بھارت کی نریندر مودی حکومت نے شہریت کے ایک متنازع ترمیمی قانون ، سی اے اے کو نافذ کر دیا ہے۔ مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے پیر کو سوشل میڈیا ایکس کے ذریعہ بارہ بجے شب اس کے نفاذ کی اطلاع دی۔

شہریت کے اس ترمیمی ایکٹ (سی اے اے ) کے تحت ان ہندو، پارسیوں، سکھوں، عیسائیوں اور بودھ اور جین مت ماننے والوں اور دوسروں کو بھارت کی شہریت دی جا سکتی ہے جو 31 دسمبر 2014 سے قبل مسلم اکثریتی ملکوں، افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان سے فرار ہو کر ہندو اکثریتی ملک بھارت میں آئے ہوں۔

نئی دہلی سے وی او اے کے نمائندے سہیل انجم کی رپورٹ کے مطابق حکومت کے اس فیصلے کی جہاں ستائش ہو رہی ہے وہیں کئی مبصرین سی اے اے کے نفاذ کے لیے دن اور وقت کے انتخاب پر حیرانی بھی ظاہر کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے شہریت قانون کو نافذ کرنے کے لیے ایسے وقت کا انتخاب کیا ہے، جب ملک بھر میں رمضان کا آغاز ہو چکا ہے اور کچھ ہی دنوں میں عام انتخابات کا اعلان بھی متوقع ہے۔

شہریت قانون بل بھارت کی پارلیمانی تاریخ کے متنازع ترین قوانین میں سے ایک ہے۔ وزیرِ داخلہ امت شاہ نے 9 دسمبر 2019ء کو بھارت کی پارلیمان کے ایوانِ زیریں لوک سبھا میں شہریت ترمیمی بل پیش کیا تھا۔ جسے اپوزیشن کی مخالفت کے باوجود کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا تھا۔ اس کے خلاف بھارت میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرہے ہوئے، جس کا سلسلہ بھارت کے کچھ حصوں میں سال بھر تک جاری رہا۔ مظاہروں اور فرقہ وارانہ تشدد پھوٹ پڑنے کے بعد اس پر عمل درآمد کے ضابطے تشکیل نہیں دیے تھے۔

وزیر اعظم کے دفتر کے ترجمان نے ایک ٹیکسٹ میسیج میں کہا، “مودی حکومت شہریت ترمیمی قانون کے نفاذ کا اعلان کرتی ہے۔”

ترجمان نے حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے 2019 کے انتخابی منشور کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، “یہ جے پی کے 2019 کے انتخابی منشور کا ایک لازمی حصہ تھا۔ یہ بھارت میں مظلوموں کے لیے شہریت حاصل کرنے کی راہ ہموار کرے گا۔”

وزارت داخلہ کے ایک ترجمان نے کہا کہ یہ قواعد CAA-2019 کے تحت اہل افراد کو بھارتی شہریت کی درخواست دینے کے قابل بنائیں گے، اور یہ کہ درخواستیں ایک ویب پورٹل کے ذریعے، جو فراہم کر دیا گیا ہے، آن لائن رجسٹر کی جائیں گی۔

مساوات پر مبنی سیکولر آئین کے حامل بھارت میں مذہبی بنیاد پر امتیاز کرنے والے اس قانون پر سخت تنقیدیں ہوئی ہیں، جس کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ تاہم قومیت پسند حکمراں جماعت بھارتیہ جتنا پارٹی ان اعتراضات کو یہ کہہ کر خارج کر رہی ہے کہ قانون دراصل مذہبی امتیازات کی شکار ان اقلیتوں کے لیے ہیں، جنہیں اور کہیں پناہ نہیں مل سکتی۔

مسلم گروپوں کا کہنا ہے کہ یہ قانون، شہریوں کی ایک مجوزہ قومی رجسٹریشن کے ساتھ مل کر، بھارت کے 20 کروڑ مسلمانوں کے ساتھ، جو دنیا کی تیسری سب سے بڑی مسلم آبادی ہے، تعصبانہ سلوک کر سکتا ہے۔ انہیں ڈر ہے کہ حکومت کچھ سرحدی ریاستوں میں ان مسلمانوں کی شہریت ختم کر سکتی ہے جن کے پاس قانونی دستاویزات موجود نہیں ہیں۔

حکومت اس قانون کے مسلم مخالف ہونے کی تردید کرتی ہے اور کہتی ہے کہ مسلم اکثریتی ملکوں میں ظلم و ستم کا سامنا کرنے والی اقلیتوں کی مدد کے لیے اس قانون کی ضرورت ہے۔

اس کا کہنا ہے کہ اس قانون کا مقصد شہریت دینا ہے، اسے کسی سے چھیننا نہیں، اور اس نے پہلے ہونے والے مظاہروں کو سیاسی طور پر محرک قرار دیا ہے۔

مودی نے 2014 میں اقتدار سنبھالا تھا جس کے بعد سے ترقی، معاشی بہبود، انفراسٹرکچر کے فروغ اور جارحانہ ہندو قوم پرستی پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے اس پر اپنی گرفت مضبوط کر لی ہے۔

رائے عامہ کے جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مئی تک ہونے والے عام انتخابات میں آسانی سے اکثریت حاصل کر لیں گے۔

اہم اپوزیشن کانگریس پارٹی نے کہا ہے کہ پیر کا اعلان قریب آنے والے انتخابات کی وجہ سے کیا گیا ہے۔

کانگریس کے ترجمان جیرام رمیش نے X پر کہا، “قواعد کے نوٹیفکیشن کے لیے نو بار توسیع کی کوشش کے بعد، انتخابات سے پہلے کا وقت واضح طور پر انتخابات کو پولرائز کرنے کے لیے بنایا گیا ہے، خاص طور پر مغربی بنگال اور آسام میں “

مغربی بنگال اور آسام کی مشرقی ریاستوں میں, جہاں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے، سی اے اے کے خلاف مظاہرے ہوئے ہیں کیونکہ کچھ مسلمانوں کو خدشہ ہے کہ اس قانون کا استعمال انہیں پڑوسی ملک بنگلہ دیش سے آنے والے غیر قانونی تارکین قرار دینے اور ان کی بھارتی شہریت کو ختم کرنے کےلیے کیا جاسکتا ہے۔