پاکستان: توہینِ مذہب کے الزام پر دو طلبہ مجرم قرار؛ ایک کو سزائے موت

182

پاکستان کےصوبہ پنجاب کے شہر گوجرانوالہ کی مقامی عدالت نے توہینِ مذہب کے مبینہ الزام پر ایک طالب علم کو سزائے موت جب کہ جرم میں شریک دوسرے طالب علم کو کم عمر ہونے کے باعث دو بار عمر قید کی سزا سنائی ہے۔

گوجرانوالہ کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ظفریاب چدھڑ کی جانب سے جاری کیے گئے فیصلے کے مطابق سزا پانے والے ایک فرد کی عمر 22 سال جب کہ دوسرے کی عمر 13 سال ہے۔

توہینِ مذہب کا جرم ثابت ہونے پر 22 سالہ فرد کو موت کی سزا جب کہ دوسرے ملزم کو نابالغ ہونے کے باعث دو بار عمر قید کی سزا دی گئی ہے۔

جج ظفریاب چدھڑ نے کیس کا ابتدائی فیصلہ رواں ہفتے ہی سنایا تھا جس کا تحریری فیصلہ جمعے کو جاری کیا گیا ہے۔

توہینِ مذہب کے مرتکب دونوں افراد طالب علم بتائے جاتے ہیں جن کے خلاف 2022 میں لاہور کے تھانہ ایف آئی اے سائبر کرائم میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

مقدمے کو عدالتِ عالیہ لاہور کے حکم پر گوجرانوالہ کی مقامی عدالت منتقل کیا گیا تھا جہاں عالت نے مقدمے کی سماعت مکمل کر کے ملزمان پر توہینِ مذہب کا جرم ثابت ہونے پر فیصلہ جاری کیا ہے۔

عدالتی فیصلے کے مطابق مرکزی بالغ ملزم کو تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 295 سی کے تحت سزائے موت اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزائیں دی گئی ہیں۔

عدالتی فیصلے کے مطابق ملزم کو تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 295 اے کے تحت پانچ سال قید بامشقت اور توہینِ مذہب کا جرم ثابت ہونے پر دفعہ 298 سی کے تحت تین سال قید بامشقت کی سزائیں بھی کاٹنا ہوں گی۔

عدالتی فیصلے کے مطابق اسی مقدمے کے دوسرے ملزم کو 295 اے، 295 بی، 295 سی اور 298 اے کے تحت الزامات ثابت ہونے پر مجموعی طور پر دو مرتبہ عمر قید اور دو لاکھ روپے جرمانے کی سزائیں سنائیں گئی ہیں۔

عدالتی فیصلے کے مطابق دوران سماعت یہ ثابت ہوا کہ ایک مجرم غیر اخلاقی ویڈیوز بناتا تھا جب کہ دوسرا مجرم مذکورہ مواد شیئر کرتا تھا۔

ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج گوجرانوالہ ظفریاب چدھڑ کی جانب سے سنائے گئے عدالتی فیصلے کے خلاف مجرمان سات روز میں عدالتِ عالیہ لاہور میں اپیل دائر کر سکتے ہیں۔

فیصلہ سنائے جانے سے قبل عدالت کے باہر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں ایک نجی اسکول میں قرآن اور سنت کی تعلیمات اور اس کی واضح جانچ پڑتال نہ ہونے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک نجی سکول کا نظام طلبہ کی شخصیت نکھارنے اور ان کو مذہب کے بارے میں درست تعلیمات دینے میں ناکام رہا ہے۔

عدالتی فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ جدید تعلیم دینے والے اسکولوں کا فرض ہے کہ وہ طلبہ کی سرگرمیوں پر بھی نظر رکھیں۔ افسوس کہ ایسا نہیں ہوا جس کے سبب طالبِ علم سیدھی راہ سے ہٹ گیا اور وہ اپنے خاندان کے لیے بھی رسوائی کا سبب بنا۔

عدالت نے فیصلے کی کاپی نجی اسکول کے چیئرمین کو بھجوانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ مناسب وقت ہے کہ موجودہ صورتِ حال کا جائزہ لیا جائے۔

سزائے موت پانے والے مجرم کے وکیل کے مطابق طالب علم کو جھوٹے مقدمے میں پھنسایا گیا ہے۔

سزا پانے والے مجرم کے وکیل اسلم گجر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ شکایت کنندہ نے ایک پراپرٹی ڈیلر کے ساتھ مل کر ایف آئی اے سائبر کرائم کی ملی بھگت سے طلبہ کو جھوٹے مقدمے میں پھنسایا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ دونوں افراد نے کوئی توہینِ رسالت اور توہینِ مذہب نہیں کی۔ دونوں ہی پیغمبرِ اسلام اور شعائرِ اسلام کا بہت احترام کرتے ہیں۔

ایڈوکیٹ اسلم گجر کے مطابق شکایت کنندہ اور ایک پراپرٹی ڈیلر نے ان کے مؤکل سے رقم کا مطالبہ کیا کہ آپ اور آپ کے خاندان کا جاپان میں کاروبار ہے۔

ان کے بقول مجرم کی جانب سے انکار پر دونوں افراد ان کے مؤکل کو لاہور کے سائبر کرائم تھانے لے گئے جہاں ایف آئی اے کے انکوائری افسر نے بھی ان کے مؤکل کے خلاف جھوٹا مقدمہ درج کر کے حوالات میں بند کر دیا۔

اِسی طرح سید غیرت ایڈووکیٹ جو کہ عمر قید کی سزا پانے والے نابالغ مجرم کے وکیل ہیں، اُنہوں نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ شکایت کنندہ نے بددیانتی کے ساتھ اس کیس میں ان کے مؤکل کو پھنسایا ہے۔ اُن کے مؤکل نے کبھی توہینِ مذہب نہیں کی۔

پھانسی کی سزا پانے والے مجرم کے والد کے مطابق اُن کا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے ہے۔ اُن کے بیٹے نے لاہور کے نجی تعلیمی ادارے سے او لیول اور اے لیول میں کامیابی حاصل کی ہے۔ مقدمے کے اندراج کے وقت اُن کا بیٹا نجی یونیورسٹی میں قانون کی تعلیم حاصل کر رہا تھا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ وہ گوجرانوالہ کی عدالت کے فیصلے کے خلاف عدالتِ عالیہ لاہور میں اپیل دائر کریں گے۔

اُن کا کہنا تھا کہ اُن کی اور اُن کے بیٹے کی کسی سے کوئی مخاصمت نہیں ہے۔ وہ شریف لوگ ہیں۔ اُن کے بیٹے کو ایک جھوٹے مقدمے میں پھنسایا گیا ہے۔

پھانسی کی سزا پانے والے مجرم کے والد نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ شکایت کنندہ نے اُن کی بیٹی کو بھی اِس جرم میں پھنسانے کی کوشش کی تھی۔ وہ کہیں بھی جا کر حلفیہ کہنے کو تیار ہیں کہ اُن کے بیٹے نے توہینِ مذہب نہیں کی۔ اُن کا بیٹا تو نعت خواں ہے۔

خیال رہے پاکستان سمیت انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں توہینِ مذہب اور اس سے جُڑی سزاؤں پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتی رہتی ہیں۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق توہینِ مذہب اور اِس سے جڑے قوانین کا غلط استعمال بھی دیکھنے میں آیا ہے

توہینِ مذہب کے واقعے کا مقدمہ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ لاہور میں 2022 میں درج کیا گیا تھا۔ مقدمے کے مدعی لاہور کے علاقے سمن آباد کے رہائشی ہیں۔

مقدمے کے مطابق ملزمان نے مدعی مقدمہ کو مبینہ طور پر تین مختلف موبائل فون نمبروں سے مذہب سے متعلق توہین آمیز مواد ارسال کیا تھا۔

فرد جرم میں مزید کہا گیا ہے کہ ملزمان نے اپنے اس فعل سے معاشرے اور ملک میں انتشار پیدا کیا جس سے مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے ہیں۔

ایف آئی اے کے مطابق مقدمہ درج ہونے کے بعد خفیہ اطلاع پر اُنہوں نے کارروائی کی جس میں ملزمان کے زیرِ استعمال ایک موبائل فون پر واٹس ایپ استعمال کرنے والے شخص کو لاہور سے گرفتار کر لیا گیا۔

ایف آئی اے کے مطابق موقع پر جب اس موبائل فون سے واٹس ایپ چیک کیا گیا تو اس میں مبینہ گستاخانہ مواد موجود تھا۔

ایف آئی اے کا کہنا تھا کہ ملزم نے دورانِ تفتیش اپنے دیگر دو ساتھیوں کے بارے میں بتایا جو کہ دیگر نمبر استعمال کر رہے تھے۔

ایف آئی اے نے ملزمان کے خلاف 295 اے، 295 بی، 295 سی، 298 اے، 120 بی، 34 اور 109 اور الیکٹرانک کرائم ایکٹ کی دفعہ 11 کے تحت مقدمہ درج کیا۔

مقدمہ کے مدعی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ایک مجرم لاہور کا رہنے والا جب کہ دوسرا سرگودھا کا رہائشی تھا۔

ان کے بقول مجرمان نے گستاخانہ فعل چوں کہ لاہور میں کیا اس لیے قانون کے مطابق مقدمہ بھی لاہور ہی میں درج کرایا گیا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ پھانسی کی سزا پانے والے مجرم کے والدین شریف لوگ ہیں۔ لیکن اُن کے بیٹے نے توہینِ مذہب کی جس کے سبب عدالت نے اُنہیں سزا سنائی۔