پیاری شانتل
تحریر: سراج نور
دی بلوچستان پوسٹ
صرف دو چیزیں ہیں جو زندگی میں واقعی اہمیت رکھتی ہیں، ادب اور محبت..!
ڈیفنی کالوٹی
میں خیرعافیت سے ہوں آپ کی خیر خیریت ربِ پاک سے چاہتا ہوں،
میری پیاری شانتل، شاید آپ کو یاد ہوگا کہ میں نے ہمیشہ آپ سے کہا ہے کہ اس دنیا میں ہر چیز وقتی ہوتی ہیں آپ بھی صرف ایک مخصوص وقت کیلئے میرے ساتھ ہو، وقت گُزر نے کے ساتھ ساتھ آپ کی ضرورتیں بدلتے جائینگے اور آہستہ آہستہ آپ بھی بدلتی جاؤگی، لیکن آپ نے کبھی بھی مجھ سے اتفاق نہیں کیا، آپ ہمیشہ کہتی تھی کہ میں آپ کی محبت ہوں کوئی بدلنے والی چیز نہیں، آج وقت نے ثابت کردیا کہ اس دنیا میں ہر چیز ایک مُدت کیلئے ہوتی ہیں۔
میری پیاری شانتل، تمہارے بعدمیں نے خود کو ڈھونڈ نے کی بہت کوشش کی لیکن نہ میں نے خود کو پایا نہ تمہاری جیسی کوئی عورت جس کا نام لیکر مجھ کو سکون میسر ہو، تمہاری بچھڑ نے کے بعد کئی مہینوں تک میں تمہاری ان میسجز کو پڑھتا رہا جو آخری بار تم نے کی تھیں، یاد ہے اس دن تم نے مجھ سے کہا کہ تم میرے لئےمر چکے ہو،
سچ پوچھو تو میں اس دن سے مرچکا ہوں۔۔۔۔
اس دن کے بعد میں یہ بھول چکا ہوں کہ جینا کیا ہوتاہے؟
زندگی کو کیسے جیا جاتا ہے؟
تمہارے جانے کے بعد دوستوں سے ناطہ ٹوٹ گیا، نہ خلیل جبران سے ملاقات ہوئی نہ فیئوڈر دوستو وسکی سے نہ جولیس فیوچک سے نہ ڈاکٹر چی اور فیڈرل کاسٹرو سے۔
ناؤم چومسکی ہمیشہ کیلئے ناراض ہوگیا، اور ہنری کسنجر تمہاری طرح بچھڑ گیا۔
ایک بار پھر طلبہ سیاست کو خیرآباد کہنا پڑ گیا، اس لئے کہ ایک اپائج اور تنگ نظر ذہن سازی نہیں کرسکتا، ایک بار پھر سینکڑوں دوست سیاسی حریف بن گئے، ایک بار پھر نام نہاد قومپرست، نظریاتی دوست زاتیات پر اُتر آئے ایک بار پھر سیاسی سرکلوں سیاسی بحث مباحث کی موت ہوگئی، اک بار پھر کچھ اور کتاب دوست نظریاتی دوستوں نے خود کی اَنا کی تسکین کیلئے مجھےسوشل میڈیا کا زینت بنادیااور میں قوم پرست سے مفاد پرست بن گیا، بقول میرے ایک معزز جاننے والے کے مطابق میں نے مونچھ کاٹ کر داڑھی رکھ لیا۔
شانتل جانتی ہو مجھے خوشی اس بات پر ہوئی کہ آپ نے ایک بڑی مُدت کے بعد مجھے میسج کیا، وہ الگ بات ہے کہ تمہاری باتوں نے مجھے ایک بار پھر جھنجوڑ دیا۔
شانتل میں جانتا ہوں کہ اس وقت الیکشن کا مطلب ہے اپنے وطن پر قربان ہونے والے ان شہیدوں کے ساتھ غداری، جنہوں نے اپنی موجودہ وقت کو ہماری مستقبل کیلئے قربان کیا ہے، ان لوگوں کے ساتھ غداری ہے جو انفرادیت کی سوچ سے نکل کر بلوچ قومی بقاء کیلئے جنگ لڑرہے ہیں، ان ماؤں بہنوں کے ساتھ دھوکہ بازی غداری ہے جن کے پیارے لاپتہ ہیں۔
شانتل!
میں یہ جانتا ہوں، بلوچ قوم کی بقاء کا مسئلہ ہے، اور یہ جو جنگ چل رہی ہیں یہ بقاء کی جنگ ہے لیکن میں جنگ کے قابل نہیں ہوں، کیونکہ جنگ کیلئے ایک تندرست اور صحت مند جسم کے ساتھ ساتھ ایک صحتمند ذہن کی ضرورت ہے، نہ میں جسمانی طور پر تندرست ہوں اور نہ ہی ذہنی طور پر۔
شانتل، اگر سچ پوچھوں، میں بھی بے ضمیر ہو چکاں ان نوابوں، سرداروں اور میروں کی طرح جو ریاستی ظلم جبر قبضہ کا ساتھ دیتے ہیں، ایسا نہیں کہ میں کچھ نہیں جانتا، سب کچھ جاننے کے بعد ظالم کا ساتھ دینے والا میں بھی ظالم ہوں،
ہاں میں یہ مانتا بھی ہوں کہ میں ایک ظالم ہوں۔
شانتل!
اس وقت گریشگ اور نال میں، نیشنل پارٹی میر، نواب اور سرداروں کی پارٹی بن چکی ہیں، یہ وہی نیشنل پارٹی ہے 2013 کی الیکشن کے بعد ڈاکٹر مالک کی دور حکومت میں سینکڑوں لائبریریوں کو آگ لگادی گئی، لاکھوں کتاب جل کر رکھ ہوگئے، یہ وہی نیشنل پارٹی ہے جس کی دور حکومت میں چیئرمین زاہد کرد کو لاپتہ کردیا گیا، یہ وہی نیشنل پارٹی ہے جس کے دور حکومت میں خضدار توتک سے اجتماعی قبریں سامنے آئے، یہ وہی نیشنل پارٹی ہے جس کی دور حکومت میں سی پیک معاہدہ ہوا جس کے بدلے لاکھوں لوگ فوجی آپریشنوں کی زد میں آکر بے گھر ہوگئے، ہزاروں لوگ لاپتہ کردیئے گئے۔۔۔ یہ وہی نیشنل پارٹی ہے جس کے دور حکومت میں گریشہ جیسے پرامن سرزمین کو نو گو ایریا قرار دے کر کئی فوجی آپریشن کئے گئے۔۔۔۔۔۔۔ میں یہ سب جانتے ہوئے نیشنل پارٹی کا حامی ہوں کیونکہ میں قومپرست نہیں مفاد پرست ہوں۔
شانتل گریشگ اور نال میں جو دوسری پارٹی سرگرم ہے وہ پاکستان پیپلز پارٹی، جیسے ہمارے بزرگ کہتے ہیں بھٹو کل بھی قاتل آج بھی قاتل ہے۔ ان لوگوں کا ایک نعرہ بہت مشہور ہے شاید آپ نے سنی ہوگی،
بھٹو کل بھی زندہ تھا اور بھٹو آج بھی زندہ ہے۔
میری پیاری شانتل!
یہ نعرہ نہیں بلکہ ہم جیسے مظلوم لوگوں کیلئے اک قسم کی دھمکی ہے، بلوچستان میں فوجی آپریشنوں کا داستان بھی یہاں شروع ہوگئی اگر میں غلط نہ ہوں اگر غلط ہوا تو معزرت کرتا ہوں، یہ پی پی پی جس نے 1973 میں سینکڑوں بلوچوں کو قتل کردیا کئی لوگوں کو اپنے جیلوں میں بند کرکے کئی سال ازیت دینے کے بعد چھوڑ دیا۔ یہ وہی پی پی پی ہے جس نے لیاری جیسے ادبی،سیاسی ،موسیقی اور ہنر مند نوجوانوں کی شہر کو منشیات اور گینگ واروں کا اڈہ بنا دیا۔ وہاں ماؤں کے خواب چور ہوگئے، وہ مائیں جنہوں نے اپنے بچوں کو ڈاکٹر، ٹیچر، انجبیئرنگ، پائیلٹ اور پروفیسر بننے کا خواب دیکھا تھا۔ وہ منشیات کے عادی یا گینگ وار بن گئے، جو نشہ کا عادی بن گئے بھی زندہ لاش کی مثال ہوگئے جو گینگ وار بن گئے سندھ پولیس کی گولیوں کی نشانہ ہوگئے، شانتل یار میری بے بسی دیکھو اس کے باوجود میں پارلیمانی سیاستدانوں کا ساتھ دے رہا ہوں۔
شانتل، گریشگ اور نال میں تیسری پارٹی جمعیت علماء اسلام اور بلوچستان نیشنل پارٹی کا اتحاد ہے، جمعیت کے بارے میں کچھ کہہ نہیں سکتا کیونکہ اس پارٹی کا ایک رکن میں بھی ہوں، ہاں اتنا بتا تو سکتا ہوں گریشگ اور نال میں تعلیمی بحران تھوڑا زیادہ ہوگیا ہے۔ اسکا ذمہ دار جمعیت علماء اسلام ہے کیونکہ پہلے جب ہم نے سروے کیا کم اسکول بند تھے جب بھی دوستوں کی سروے سے معلوم ہوا کچھ اسکول رہ گئے باقی سب بند ہوگئے، یہ عظیم کریڈیٹ ہمارے سابقہ ایم پی اے کو جاتا ہے اور بی این پی والوں کا اگرنام لئے جائیں تو وہ خود کو نظریاتی کہتے ہیں ایسا لگتا ہیں مجیڈ بریگیڈ کی فدائیوں سے زیادہ نظریاتی ہیں، شاید بلوچستان نیشنل پارٹی والوں کو یہ علم نہیں کہ 28 مئی 1998 میں بلوچستان کے ضلع چاغی میں جو ایٹمی دھماکہ ہوا تھا سردار اخترمینگل اس وقت بلوچستان کا وزیر اعلی تھا، یہ ان چیزوں سے بالکل ناواقف اور انجان ہیں، ان نظریاتی کارکنوں کا کیا پتہ سردار اختر مینگل کو بھی تعلیم سےاتنا الرجی ہے جتنا دوسرے پارلیمانی سیاستدانوں کو۔
یار شانتل، مختصر کہوں نال اور گریشگ کے جتنے اسکول ہیں ان میں استاد اور استانیاں، سردار ساجدی اور بزنجوصاحب کے قریبی رشتہ دار ہیں جہنوں نے نہ اسکول دیکھا ہے نہ طلبہ اور طالبات کی شکلیں، اگر کچھ دیکھا ہے تو سردار صاحبوں کی مہمان خانوں کے سوا کچھ بھی نہیں
اور پارلیمانی کوئی بھی سیاستدان یہ نہیں چاہتے کہ بلوچ عوام پڑھ کر علم حاصل کریں، کیونکہ ان لوگوں کو شعور سے بہت ڈر لگتا ہے،،
جس طرح12 فیل فلم میں منوج اپنے انٹرویو میں کہتا ہے اگر شہری پڑھے لکھے ہوئے وہ سیاستدانوں کیلئے پریشانی کا باعث بنتے ہیں۔ اگر بلوچ نوجوان پڑھ لکھ جائیں وہ بھی ان میروں، نوابو ں اور سرداروں کیلئے پریشانی بن جاتے ہیں، اس لئے ہماری قومی ذمہ داری میں تعلیم شامل ہی نہیں۔
میری پیاری شانتل معزرت، میں قومپرست سے مفاد پرست بن گیا، اور مجھے اُمید ہے کہ آپ بلوچ کی بقاء کی جنگ کی حمایت کروگے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔