ماہ رنگ: بلوچ جدوجہد کی خود ارادی اور شعور – کامریڈ خرم علی

458

ماہ رنگ: بلوچ جدوجہد کی خود ارادی اور شعور

تحریر: کامریڈ خرم علی

دی بلوچستان پوسٹ

یوں تو ماہ رنگ بلوچ نوعمر ہونے کے باوجود خاصے عرصے سے جدوجہد کر رہی ہیں لیکن بانک کریمہ کی شہادت کے بعد ایسا لگا کہ جیسے بانک کی ذمہ داریوں کو انہوں نے ایک دم ایسے اٹھا لیا ہو کہ جیسے ماں باپ کی رحلت کے بعد اولاد ایک دم جوان ہو جاتی ہے۔ ماہ رنگ بھی یک دم طلبہ سیاست سے قومی مزاحمتی سیاست کے دھارے میں اپنی لمہ کی جدوجہد کا بار اٹھانے کے لئے شامل ہو گئیں۔ ایسےوقت میں کہ جب مجھ جیسے بہت سے لوگوں کو یہ واقعہ خوف کی طرف لے گیا اس وقت ماہ رنگ کی قیادت میں نئی نسل نے اس غم و غصے کو نئی تحریک میں تبدیل کر دیا۔ ہم معروضی حالات سے خوفزدہ تھے لیکن ماہ رنگ کو بلوچ جدوجہد کی خود ارادی بانک سے ورثے میں ملی تھی۔ ہم غلط تھے اور ماہ رنگ صحیح تھی۔ ہم اس مکنیکی انداز میں چیزوں کو دیکھ رہے تھے جس انداز میں لینن کے دور کے عمر رسیدہ مارکسی دیکھتے تھے اور ماہ رنگ کو لینن کی مانند اپنے نظریات کی خود ارادی پر اعتماد تھا۔ ماؤ کا ماننا درست نکلا کہ انقلابی خودارادی میں وہ قوت ہے کہ وہ تاریک سے تاریک مادی حالات میں بھی انقلاب کی لو جلا سکتی ہے۔

بلوچستان میں یہ لو کئی ادوار میں جلی لیکن جس انداز میں اس لو کو نواب خیر بخش مری نے 70 کی تحریک کے بعد جلایا وہ ایک منفرد انداز تھا۔ ایک ایسا وقت کہ جب تحریک مکمل پسپائی کا شکار تھی اور ہر طرف مصالحت کا شور تھا اور تحریکوں سے وابستہ رومانویت بھی روٹھی ہوئی تھی۔ ایسے میں انقلابی شعور کو زندہ رکھنا آسان کام نہیں تھا کہ اس کے لئے اپنے نظریات پر کامل یقین اور اپنے خیالات میں مکمل صراحت درکار ہوتی ہے۔ میرے خیال میں آج تحریک جس بھی مقام پر ہے اس میں بے تہاشہ لوگوں کا خون، قربانیاں، محنت شامل ہے لیکن ان سب کی بنیاد نواب خیر بخش مری کے حق توار کا پودا تھا۔ ایک ایسا پودا جو صرف جذبات اور بہادری پر نہیں کھڑا تھا بلکہ جس نے ماضی کی غلطیوں کو بھی سمجھنا تھا اور ان سے سیکھ کر مستقبل کے لئے راہ کا تعین بھی کرنا تھا۔

یوں تو میں بھی زیادہ تر لوگوں کی طرح ان کے کردار اور ان کی سوچ کو ان کے چند انٹرویوز اور جو کچھ لوگوں نے ان سے سنا یا دیکھا اس ہی کی بنیاد پر آشنائی رکھتا ہوں لیکن جو محدود معلومات مجھ تک پہنچی ہے اس کی بنیاد پر میری ناقص رائے میں وہ ایک وسیع اور دوررس سوچ رکھتے تھے اور اگر یہ کمال ان میں نہ ہوتا تو شائد بلوچ تحریک اس مقام پر نہ پہنچ پاتی جہاں وہ آج موجود ہے۔ خیر بخش صاحب کے انٹرویوز اس بات کی مکمل دلیل پیش کرتے ہیں کہ وہ بلا شبہ مارکسی لیننی فکر کے حامل تھے اور بہت سے مکنیکی اور رومانوی مارکسیوں کے بر خلاف 56 کے بعد روس اور 70 کے بعد چین جس ترمیم پسندی اور سوشل سامراجیت کا شکار ہوا اس کو دیکھنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ خیر بخش صاحب میں ماؤ والی وہ بات تھی کہ کیسے انقلابی شعور کو مقامی شعور کے ساتھ ملایا جائے اور اپنے معروضی حالات کے حساب سے نہ صرف انقلاب کی راہ متعیں کی جائے بلکہ یہ نشاندہی بھی کی جائے کہ ان مخصوص حالات میں کس مرحلے کا انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے۔ بے شک سیاست کی بنیاد میں اگر کوئی چیز کار فرما ہے تو وہ ہے شعور۔

شعور اور انقلابی شعور

مارکس کے لئے شعور انسان کے سماجی رشتوں اور تجربات کا مظہر ہوتا ہے۔ یہ شعور اس کو بتاتا ہے کہ اس کی سماج میں کیا حیثیت ہے جیسے ہر مزدور یہ سمجھ سکتا ہے کہ مجموعی طور پر مزدور طبقے کی معاشرے میں کیا حیثیت ہے اور ان کا معاشرے اور معیشت کے ساتھ کس قسم کا رشتہ ہے۔ اس ہی طرح سے بلوچ کا شعور اس کو یہ بتاتا ہے کہ جس ریاست میں وہ رہ رہا ہے اس میں اس کی کیا حیثیت ہے اور اس کا بحیثیت قوم اس سے کس طرح کا رشتہ ہے۔ مگر مارکس کا کہنا تھا کہ یہ شعور کافی نہیں کیونکہ ایسا شعور آپ کو صرف آپ کے حالات کی آگہی فراہم کرتا ہے۔ مارکس کے مطابق انقلابی شعور وہ شعور ہے جو آپ کے اس شعور کو کہ آپ کون ہیں (جیسے آپ مزدور ہیں یا آپ بلوچ ہیں) سے ایسے شعور میں تبدیل کرتا ہے جو یہ بتاتا ہے کہ آپ اپنے لئے کیا کرسکتے ہیں (یعنی مزدور طبقاتی طور پر کیا کرسکتا ہے یا بلوچ قومی طور پر کیا کرسکتا ہے)۔ انقلابیوں کا کام مزدور یا بلوچ کو تاریخ کے آئینے میں اس کو اس کا وہ چہرہ دکھانا ہے جس سے اس کو اپنے انقلابی کردار کا ادراک ہوسکے۔

مارکس نے تاریخ اور شعور کو جس طرح دیکھا لینن اس کو اور آگے لے کر گیا۔ لینن کے مطابق انقلابات محض سماجی قوتوں کی خود با خود لڑائی سے وقوع پزیر نہیں ہوتے بلکہ انقلابیوں کے شعوری عمل سے وقوع پزیر ہوتے ہیں یعنی انقلابات سماجی واقعات نہیں ہوتے بلکہ سیاسی واقعات ہوتے ہیں جن کے لئے انقلابی پارٹیاں شعوری طور پر انقلابی طبقات کو منظم کرتی ہیں۔ اگر ہم بلوچستان کے حالات میں اس کا جائزہ لیں تو شائد ہی کوئی بلوچ ہو کہ جو نہ جانتا ہو کہ اس کا استحصال ہو رہا ہے لیکن وہ خود بخود اس استحصال کے خلاف لڑنے کے لئے نہیں کھڑا ہو سکتا تھا۔ یہ انقلابیوں کا عمل تھا جس نے اس احساس کے اوپر کام کرتے ہوئے انہیں سیاسی طور پر منظم کرنے کی کوشش کی۔ اس طرح لینن نے مارکسزم کو انقلابی حالات کے انتظار سے نکال کر خود اس وقت موجود سماجی قوتوں پر کام کر کے انقلاب کا راستہ ڈھونڈنے کا تصور فراہم کیا۔

ماؤ کے مطابق شعور کا سفر صرف انقلابیوں سے عوام کی طرف نہیں بلکہ عوام سے انقلابیوں کی طرف بھی ضروری ہے۔ یعنی درست انقلابی عمل وہ ہے جس کے دوران انقلابی شعور عوام پر کام کر رہا ہو تو عوامی شعور سے انقلابی بھی سیکھ رہے ہوں۔ اس ہی لئے ماؤ کا کہنا تھا کہ عوام کا اچھا استاد بننے سے پہلے عوام کا اچھا شاگرد بننا ضروری ہے۔ شعور کا یہ نیا زاویہ ہی تھا کہ جس نے چین جیسے زرعی سماج میں اشتراکیت کی راہ ہموار کی لیکن اس کے لئے ضروری تھاکہ انقلابی عوام کے فوری اہداف کو ان کے طویل المدت اہداف کے ساتھ جوڑیں۔ مگر اس طرح کا انقلابی شعور، انقلابی عمل کے لئے کچھ سوالات کھڑے کر دیتا ہے۔

انقلابی عمل اور انقلابی شعور

عمل اور نظریے کو کتابوں میں ملانا تو بڑا آسان ہوتا ہے لیکن عملی دنیا میں یہ بہت کٹھن سوال ہوتا ہے۔ اس حوالے سے اکثر انقلابیوں میں دو متضاد رجحانات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ایک رجحان کے انقلابی نظریے کو عقیدہ بنا لیتے ہیں اور اس کو جوں کا توں قائم رکھنے کے لئے اس کو عوام کے لئے ان کے زمان و مکان سے باہر کا کوئی خیال بنا کر پیش کرتے ہیں اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نظریہ محض سیمیناروں کی زینت بن کر رہ جاتا ہے۔ دوسرا رجحان وہ ہے جو نظریے کو محض چھوٹے مقاصد حاصل کرنے اور موجودہ لڑائی لڑنے کے اوزاروں کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیتا ہے اور بڑے مقاصد اور طویل المدت لڑائی کو صرفِ نظر کر دیتا ہے۔ مثال کے طورپر اس وقت جبری گمشدگیوں کے خلاف تحریک چل رہی ہے۔ لیکن اس دوران اگر انقلابیوں نے صرف عوام میں جبری گمشدگیوں کی ہی بات کی اور عوام میں جا کر ان کو بڑی لڑائی اور بڑے مقاصد کے گرد منظم نہ کیا تو یہ اسلام آباد میں سخت سردی میں دھرنا دینے والوں اور ان کی تحریک کے ساتھ انصاف نہیں ہوگا۔ تحریکیں ہمیشہ ایک یا دو نکات پر ہی چلتی ہیں لیکن انقلابیوں نے انقلابی شعور کے گرد عوام کو کتنا منظم کیا ہے وہ تحریکوں کو انقلابات میں تبدیل کرتا ہے۔ ہر تحریک انقلاب میں تبدیل نہیں ہوسکتی لیکن اگر ہر تحریک کو عوام کو منظم کرنے اور ان میں انقلابی شعور باٹنے کے لئے استعمال کیا جائے تو ہر تحریک انقلاب کی طرف ایک اور قدم ضرور بنتی ہے۔

مگر اس حوالے سے انقلابیوں کے سامنے یہ سوال ہوتا ہے کہ وہ اپنے تصوراتی انقلابی شعور کو ان عوامل کے ساتھ کس طرح جوڑیں جن کا تقاضہ موجودہ حالات کر رہے ہوتے ہیں۔ یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ انقلابی شعور محض ایک ساکت آئنہ نہیں کہ جو آپ کے سماج اور طبقات کو آپ کے سامنے پیش کر رہا ہو بلکہ یہ انقلابی عمل سے ہر لمحے بدلتا شعور ہے۔ انقلابی عمل اور انقلاب کا تصور ایک دوسرے پر مستقل کام کر تے ہوئے آگے بڑھ رہے ہوتے ہیں۔ نظریہ یا تھیوری محض انقلابی عمل اور انقلابی شعور کے درمیان مطابقت پیدا کر کے صرف راہ فراہم کر سکتا ہے لیکن نہ تو وہ پہلے سے کسی درست عمل کے بارے میں بتا سکتا ہے اور نہ ہی مخصوص حالات سے صرفِ نظر کر کے ایسی وضاحتیں پیش کر سکتا ہے جن کا اطلاق ہر مکان و زمان پر ہو سکتا ہو۔

اصولی تضاد اور انقلابی شعور

یہ سب کہنے میں تو سادہ لگتا ہے مگر حقیقت یہی ہے کہ اکثر ہم بھول جاتے ہیں کہ بغیر انقلابی عمل کے تھیوری یا نظریہ محض عقیدہ بن کر رہ جاتا ہے اور بنا انقلابی شعور کے عمل محض ایک ایسا کام بن جاتا ہے جس کی کوئی سمت نہیں ہوتی جو ان تنظیموں یا افراد میں موجود ایسی موضوعیت کا مظہر ہے جو صرف اپنی فکر یا اپنے عمل تک محدود ہے۔ نظریہ کا کام یہ نہیں کہ وہ پہلے سے طے کر لے کہ ہر جگہ صرف مزدور طبقے پر تکیہ کر کے جدوجہد کی جائے۔ اصل کام تو یہ ہے کہ ہم نظریہ کو ایسی عینک کے طور پر استعمال کریں جو ہمارے سماج کے حالات کو سمجھنے میں ہمیں مدد فراہم کر سکے۔

یہی وجہ ہے کہ ماؤ نے اپنے تجزیہ اور حکمت عملی میں طبقے سے زیادہ تضاد کو اہمیت دی۔ ماؤ کے یہاں طبقات کا تجزیہ محض اس بنیاد پر نہیں ملتا کہ نظریاتی طور پر اس طبقے کے کردار پر مارکس یا لینن نے کیا لکھا ہے بلکہ اس کا تجزیہ اس کے انقلاب کی ضرورتوں سے نکلتا ہے۔ وہ محض پیداواری رشتوں کی بنیاد پر تجزیہ نہیں کرتا بلکہ یہ بھی دیکھتا ہے کہ ان طبقات کے سماجی پہلو کیا ہیں اور وہ سماج میں موجود طاقت کی سیڑھی پر کہاں کھڑے ہیں۔ اس ہی لئے ماؤ صرف طبقات تک نہیں رکتا بلکہ ان کو بھی مختلف پرتوں میں توڑ کر دیکھتا ہے کہ بے زمین ہاری، چھوٹے کسان، درمیانے کسان اور بڑے کسان سب کے رویے اور کردار ایک جیسے نہیں ہو سکتے۔

طبقاتی تجزیہ ایک ایسا سماجی تجزیہ ہے جو کسی بھی سماج میں موجود تمام تضادات کے تمام پہلووں کو سامنے لے کر آئے اور اس کی بنیاد پر ٹھوس انقلابی عمل اور حکمت عملی کا تعین کرنے میں رہنمائی فرمائے۔ انقلابیوں کے لئے ضروری ہے کہ ان کے شعور میں معاشرے کے تمام تضادات شامل ہوں لیکن وہ خود کو تضادات میں پھنسنے سے محفوظ رکھ سکیں کیونکہ اگر آپ ہر تضاد میں پھنس گئے تو پھر آپ انقلاب کے لئے کسی راہ کا تعین کرنے کے قابل نہیں رہتے۔ مگر سوال یہ ہے کہ تضادات کے جھنجھال پورے میں سے کیا سمت تلاش کی جائے کیونکہ یہاں تو ہر قدم پر ایک تضاد ہے اور ایسے بھی تضادات ہیں جو مظلوموں کے مظلوموں سے ہیں۔
یہ تضادات کا جھنجھال پورا ہی تھا کہ جس سے نکلنے کے لئے ماؤ نے ’’اصولی تضاد‘‘ کی اصطلاح پر زور دیا۔ ماؤ کے نزدیک تمام تضادات میں سے ایک تضاد اس وقت کا اصولی تضاد ہوتا ہے اور اس تضاد کے خلاف جدوجہد کی بنیاد پر یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ انقلابی عمل کا رخ کس طرف کیا جائے اور باقی تمام تضادات سے کس طرح نمٹا جائے۔ جیسے بلوچستان میں بھی کئی طرح کے تضادات موجود ہیں جیسے جاگیرداری یا سرداری اور عوام کے مابین تضاد، سرمائے اور مزدور کے مابین تضاد، شہروں اور دیہاتوں کے مابین تضاد، وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اس وقت بلوچستان کا اصولی تضاد سامراجی تسلط اور عوام کے مابین تضاد ہے اور باقی تمام تضادات اور طبقات کو اس تضاد کی روشنی میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ کس طبقے اور اس کی کس پرت کا کس حد تک کردار اس تضاد میں سامراجی قوتوں کے ساتھ ہوگا اور کس کا سامراجی قوتوں کے خلاف ہوگا۔

مگر حالات کے حساب سے تضادات کو دیکھنے میں ایک گڑبڑ ہو جاتی ہے اور وہ یہ کہ اگر آپ کے پاس دور رس نظر نہ ہو تو آپ محض موجودہ تضاد کی جنگ میں پھنس کر رہ جاتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ آپ کی منزل مقصود کیا ہے۔ اس ہی لئے انقلابی شعور کو زندہ رکھنا ضروری ہوتا ہے کیونکہ انقلابی شعور ہی آپ کو موجودہ وقت کے اصولی تضاد سے اگلے وقت کے اصولی تضاد کی جانب لے کر جاتا ہے۔ بعض اوقات تو یہ بھی ہوتا ہے کہ آپ اصولی تضاد کو بھی بھول جاتے ہیں اور بس اس کے لئے چلنے والی تحریک کو ہی منزل سمجھنے لگتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چند مقامات پر ایسے موقع پرست جن کا ہدف کبھی اصولی تضاد نہیں ہوتا وہ بھی تحریکوں کو لپیٹ کر اپنا فائدہ اٹھاتے ہیں اور تحریکیں بس وقتی مسائل تک محدود رہ جاتی ہیں۔ میرے لئے ماہ رنگ اور ان کے ساتھیوں کی اہمیت صرف اس وجہ سے نہیں ہے کہ وہ جبری طور پر گمشدہ افراد کے لئے اتنی بڑی تحریک چلا رہے ہیں بلکہ ان کا قد اس لئے انتہائی بلند ہے کہ وہ اصولی تضاد اور انقلابی سمت کے مطابق یہ تحریک چلا رہے ہیں کیونکہ یہ کام اپنی جان دینے سے بھی زیادہ مشکل ہوتا ہے۔

مقامی شعور اور انقلابی شعور

انقلابی نظریات ہم تک کئی ممالک خاص کر یورپی ممالک کی تحریروں و تجربات سے نکل کر پہنچے ہیں جو نہ صرف ہمارے سماجی و مادی حالات سے ٹکراؤ کا شکار ہوتے ہیں بلکہ ہمارے مقامی شعور سے بھی متصادم ہوتے ہیں جو ہماری مقامی زندگیوں سے مرتب ہوا ہوتا ہے۔ اس کی ایک مثال روس کے اپنے مخصوص حالات میں موزوں نعرہ ’’نہ قومی جنگ نہ مذہبی جنگ! طبقاتی جنگ طبقاتی جنگ!‘‘ ہے جو اس دور کی غمازی کرتا ہے جب یورپ میں سامراجی ممالک کالونیوں کے بٹوارے کے لئے اپنی اپنی قوموں کو اکسا کر جنگیں لڑ رہے تھے۔ جب اس نعرے کو عقیدہ پرست مارکسی ہمارے خطے میں لگاتے ہیں تو وہ نہ صرف بجائے سامراج کو کمزور کرنے کے اسے مزید مستحکم کر رہے ہوتے ہیں بلکہ ہمارے خطے کی عوام سے بھی اپنا ربط توڑ لیتے ہیں۔

مگر یہاں سوال یہ کھڑا ہوتا ہے کہ انقلابی شعور کیا کرے؟ ایسے میں انقلابی شعور کے پاس دو ہی راستے بچتے ہیں کہ یا تو وہ مقامی شعور کو اپنا بنا لے یا پھر خود مقامی شعور کا حصہ بن جائے۔ ماؤ کا ماننا تھا کہ کامیابی تب ہی ممکن ہے کہ یہ ایک خوبصورت رشتے میں تبدیل ہو جائے جہاں مقامی شعور انقلابی شعور کا حصہ بن جائے اور انقلابی شعور مقامی شعور میں شامل ہو جائے۔ مارکسی انقلابی شعور کو ایک طرف جس سماج میں وہ کام کر رہا ہے خود کو اس کے کلچر میں ڈھالنے کی ضرورت ہوتی ہے اور دوسری طرف سماج میں موجود کلچر پر اثر انداز ہو کر اسے تبدیل کرنے کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔

عوامی لائن

اکثر انقلابی دو میں سے ایک غلطی کر جاتے ہیں۔ یا تو وہ مقامی شعور کو پسماندہ یا غلط شعور کہہ کر مکمل طور پر فراموش کر دیتے ہیں یا پھر وہ مکمل طور پر مقامی شعور کے ہو جاتے ہیں اور عوام کی قیادت کرنے کی صلاحیت ہی کھو دیتے ہیں۔ ان دونوں عوامل سے بچ کر کام کرنے کے لئے ماؤ نے جو طریقہ نکالا وہ ہے ماس لائن یا عوامی لائن۔

کس بھی انقلابی پارٹی کی کامیابی کے لئے جمہوری مرکزیت ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اگر انقلابی پارٹی کو کامیاب ہونا ہے تو فیصلے تمام ممبران کے تجربات اور مشوروں کی بنیاد پر ہونے چاہئیں اور پھر جب فیصلے ہو جائیں تو تمام ممبران کو ان کو اپنا کر ایک مربوط تنظیم کی طرح کام کرنا چاہئے۔ جو کردار جمہوری مرکزیت پارٹی کی قیادت اور کاڈر کے درمیان قائم کرتی ہے عوامی لائن وہی کرادر پارٹی اور عوام کے درمیان قائم کرتی ہے۔ یعنی عوام کے اپنے تجربات اور مشوروں کی بنیاد پر پارٹی فیصلے لیتی ہے اور فیصلوں کو نہ صرف پارٹی کا ہر کاڈر بلکہ اس معاشرے کے عوام بھی اپنا لیتے ہیں۔

ماؤ اپنے کتابچے ’’عمل کے بارے میں‘‘ اس کے عملی طریقہ کار پر بھی بات کرتا ہے۔ پارٹی کے کاڈر عوام میں جا کر سماجی تحقیق کرتے ہیں کہ عوام حالات کو کیسے سمجھتے ہیں، کیا چاہتے ہیں، کیسے چاہتے ہیں وغیرہ، وغیرہ۔ پھر اس کے بعد جو تاثرات کاڈرز نے عوام سے حاصل کئے ہوتے ہیں ان کو نظریہ کی بھٹی میں پکا کر پارٹی لائن ترتیب دی جاتی ہے۔ پھر اس پارٹی لائن کو جا کر عوام میں اتارا جاتا ہے۔ اگر تو عوام اس لائن کو اپنی لائن مان کر تسلیم کر لیتی ہے تو ٹھیک ہے ورنہ عوامی تنقید اور تاثرات کو لے کر پھر پارٹی میں جایا جاتا ہے اور پارٹی اپنی تنقید کر کے نئی لائن تشکیل دیتی ہے اور دوبارا اس لائن کو عوام میں لے کر جایا جاتا ہےجب تک کہ پارٹی اور عوام کی لائن ایک نہ ہو جائے۔ یعنی یہ ایک ایسا تصور اور عمل ہے کہ جس سے آہستہ آہستہ پارٹی اور عوام ہی نہیں انقلابی شعور اور مقامی شعور بھی ایک دوسرے سے جڑ جاتے ہیں۔

اس کے ذریعے پارٹی اپنے انقلابی اہداف کو عوام کے فوری مفادات اور شعور کے ساتھ جوڑنے میں کامیاب ہوتی ہے۔ بلاشبہ پارٹی کا اصل ہدف انقلابی تبدیلی ہے اور اسے ہمہ وقت انقلابی کرادر اور نظریات کی درستگی کو قائم رکھنا پڑتا ہے لیکن یہ کرادار وہ تب ہی ادا کر سکتی ہے جب وہ اپنے شعور میں اس عوام کے شعور کو شامل کر سکے جس کی وہ قیادت کرنا چاہتی ہے۔ یہ محض مفادات کو نظرئیے سے ملانے کا مکنیکی عمل نہیں ہے بلکہ ایک جدلیاتی عمل ہے کہ جس کے ذریعے عوام اور پارٹی کا کلچر ایک دوسرے میں سما جائے۔ کیونکہ انقلابی جنگ صرف سماجی اور سیاسی طاقت کی جنگ ہی نہیں کلچر اور شعور کی بھی جنگ ہے۔

ماہ رنگ اور بلوچ لانگ مارچ

بالاچ کے ماورائے عدالت قتل کے بعد بلوچستان کے عوام میں جبری گمشدگیوں اور بلوچ نسل کشی کے خلاف جو غم و غصہ پایا جاتا تھا ماہ رنگ اور ان کے ساتھیوں نے اس غم و غصے کو طویل مارچ میں تبدیل کر دیا۔ ماہ رنگ اور ان کے ساتھی جانتے تھے کہ عورتوں بچوں اور بزرگوں کے اس طویل اور اذیتوں، گرفتاریوں، تشدد اور کردار کشی سے بھرپور مارچ کے بعد بھی اسلام آباد جبری طور پر گمشدہ افراد کو رہا نہیں کرے گا۔ یہ جانتے بوجھتے بھی ماہ رنگ نے اسلام آباد کا رخ کیا۔ اس مارچ میں خالی ہاتھ بلوچستان لوٹ کر ماہ رنگ نے اس انقلابی شعور کو کہ موجودہ پاکستانی ریاست اور اس کے کالونیل نظام کے اندر بلوچوں اور دیگر محکوم قوموں اور مظلوم طبقات کو کچھ حاصل نہیں ہو سکتا اسے نہ صرف بلوچستان کے عوامی شعور میں مزید مستحکم کیا بلکہ دیگر مظلوم قوموں اور طبقات کے شعور میں بھی شامل کیا۔

اس طرح عوامی شعور کو اپناتے ہوئے انقلابی شعور سے وابستہ لوگوں کے لئے ایسا تاریخی مارچ کرنا کہ جس کے آخر میں انقلابی شعور نہ صرف بلوچستان کے عوامی شعور میں مزید مستحکم ہو جائے بلکہ دیگر مظلوموں کے عوامی شعور کا بھی حصہ بن جائے آسان کام نہیں تھا۔ اگر اس مارچ کی باگ ڈور انقلابیوں کے بجائے مفاہمت پرستوں یا موقع پرستوں یا کسی اور کے ہاتھ میں ہوتی تو مارچ کے شرکا یا تو جھوٹے وعدوں اور دکھاوے کے مزاکرات کے ساتھ واپس آ رہے ہوتے اور عوام کو یہ تاثر دے رہے ہوتے کہ ریاست اور نظام کے اندر کچھ ہوسکتا ہے یا پھر لوگوں کو کوئی انقلابی راستہ دیئے بنا واپس آ رہے ہوتے جس سے لوگ مایوس ہو جاتے۔ مگر چونکہ اس مارچ کی باگ ڈور انقلابی شعور سے تعلق رکھنے والوں کے ہاتھ میں تھی لہٰذا نہ وہ صرف پہلے سے جانتے تھے کہ اسلام آباد کا کیا رویہ ہوگا بلکہ یہ بھی جانتے تھے کہ اس پورے عمل سے وہ عوامی شعور میں کیا تبدیلی پید کر سکتے ہیں۔ انقلابی شعور نہ صرف سماجی حقیقت کا عکاس ہوتا ہے بلکہ وہ اس کو سمجھنے اور بدلنے کی بھی صلاحیت رکھتا ہے۔

شعور، پارٹی اور عوام

خیر بخش مری کے انقلابی شعور کا پودا بلوچ عوام کے مقامی شعور سے مل کر آج ہمیں ماہ رنگ اور ان کے ساتھیوں کی جدوجہد کی صورت نظر آ رہا ہے مگر یہ شعور انقلابیوں اور عوام سے مزید مطالبہ کرتا ہے۔یہ بات درست ہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی نے عوامی متحدہ محاز کے طور پر بہت زبردست انداز میں اپنا کام سرانجام دیا ہے اور اس ہی طرح مزاحمتی محازوں پر بھی بلوچ تحریک بہت تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے مگر باوجود اپنے خطے کی سب سے طاقتور اور نظریاتی تحریک ہونے کے اس میں مزید بہتری کی گنجائش ہے۔عوامی محاز چاہے جتنے بھی نظریاتی ہوں وہ ہمیشہ عوام کے سامنے موجود مسائل کے محتاج ہوتے ہیں جیسے جبری گمشدگیوں کا مسئلہ۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدگیوں سے ہی وجود میں آئی اور اس کی زیادہ تر سیاست اس سے جڑی ہوئی ہے۔ فرض کر لیتے ہیں کہ اگر ریاست جبری گمشدگیوں کا مسئلہ حل کرنے کے لئے تیار ہو جاتی ہے تو پھر کیا ہوگا؟ اس ہی طرح اگر مزاحمی سیاست کرنے والوں کو کہیں وقتی طور پر شکست ہو جاتی ہے تو پھر کیا ہوگا؟

اس لئے انقلابی پارٹی کا سوال بلوچ تحریک کے لئے اہم سوال ہے۔ ایسی پارٹی جو انقلابی شعور کو مقامی شعور اور مقامی شعور کو انقلابی شعور کا اس طرح سے حصہ بنا سکے جس سے نہ صرف عوام کے مفادات انقلابی شعور کا حصہ بن سکیں بلکہ عوام بھی انقلابی شعور کے ذریعے فوری مفادات کو یکسر ٹھکرانے کے قابل ہو۔ نہ صرف جبری گمشدگیوں کا مسئلہ بلکہ عوام کا ہر مسئلہ انقلابی شعور سے جڑ جائے اور انقلابی شعور عوام کو اپنی زندگیوں میں ڈھل جائے۔ یہ نہیں ہونا چاہئے کہ جبری گمشدگیوں کے لئے تو عوام انقلابیوں کا رخ کرے مگر دیگر معاملات کے لئے ان قوتوں کا جو کہ رد انقلابی ہوں۔ اگر بانک کی شہادت کے بعد ہر لڑکی بانک بن سکتی ہے تو ایسی پارٹی بھی کھڑی کی جا سکتی ہے جو نظر بھی نہ آتی ہو مگر ہر گھر میں موجود ہو۔ میرے خیال میں بانک کی جدوجہد، ماہ رنگ کی جدوجہد، سمی کی جدوجہد، صبیحہ کی جدوجہد اور ان سب کی جدوجہد جن کے میں نام نہ لے پایا یہی تقاضہ کرتی ہے کہ عوام انقلاب کو جینا شروع کر دے اور وہ نعرہ جو بانک کی مزاحمت کے حوالے سے بلوچسیان کے کونے کونے میں نظر آ رہا ہے ان کے نظریات کے حوالے سے بھی غالب ہو۔

تم کتنی کریمہ مارو گے! ہر گھر سے کریمہ نکلے گی!


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔