سیاسی خودکشی ۔ عزیز سنگھور

240

سیاسی خودکشی
تحریر: عزیز سنگھور
دی بلوچستان پوسٹ

ملک میں مین اسٹریم پولیٹکس کرنے والی جماعتیں آہستہ آہستہ اپنی اپنی سیاسی افادیت اور اہمیت کھو رہی ہیں۔ ان کا پولیٹیکل اسٹینڈ نہ ہونے کے برابر ہے۔ وہ سیاست میں مصلحت پرستی کررہی ہیں۔ عوام کے ان کور ایشوز کو نہیں چھیڑ رہیں جو آئینی و قانونی ہیں۔ جس کی وجہ سے ملک میں سیاسی انتشار جیسی صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔ ملک میں ایک افراتفری اور سیاسی بے چینی کا ماحول ہے۔ جس کی ذمہ دار سیاسی جماعتیں ہیں۔ ان کی وجہ سے ملک میں ایک سیاسی خلا پر پیدا ہوگیا ہے۔ جسےپُر کرنے کیلئے سیاسی جماعتوں کی جگہ سول سوسائٹی نے لے لی۔ عوام سڑکوں پر آگئی۔ اور اپنی اپنی تنظیمیں تشکیل دے دیں۔ اس عمل سے بلوچ یکجہتی کمیٹی جیسی تنظیمیں بھی سامنے آئیں۔ اس وقت یہ تنظیم پورے ملک کی عوام کی آواز بن چکی ہیں۔ بلوچستان سمیت دیگر چھوٹے صوبوں میں لاپتہ افراد کا مسئلہ سنگین ہوتا جارہا ہے۔ جبری گمشدگی روز کا معمول بن چکا ہے۔ ہر تیسرا گھر متاثر ہے۔

بلوچستان سے تعلق رکھنے والے لاپتہ افراد کے لواحقین کو اپنے صوبے میں انصاف نہ ملنے کی وجہ سے ہزاروں کلومیٹر طے کرنا پڑا اور وہ آج کل وہ اسلام آباد میں سراپا احتجاج ہیں۔ ان کا مسئلہ مکمل آئینی و قانونی ہے۔ آئین و قانون کے تحت انہیں انصاف درکار ہے۔ جو انہیں نہیں مل پارہا ۔ جس سے یہ بات واضع ہوجاتی ہے کہ ملک میں ایک آئینی بحران موجود ہے۔ جو غور طلب ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی قوانین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہورہے ہیں۔ ملکی آئین یہی کہتا ہے کہ کسی بھی مجرم کو چوبیس گھنٹے میں عدالتوں میں پیش کیا جائے۔ لیکن سیکیورٹی ادارے ان کو عدالتوں میں پیش نہیں کررہے ۔ پندرہ پندرہ سالوں سے لاپتہ افراد کے لواحقین عدالتوں کے چکر کاٹ رہے ہیں۔ لاپتہ افراد کے بچے سڑکوں پر احتجاج کے دوران بڑے ہوگئے ۔ کسی کا والد لاپتہ ہے تو کسی کا بھائی ۔ اسی طرح جبرگی گمشدگی کے دوران مسخ شدہ لاشیں بھی برآمد ہوئیں۔ کل تک احتجاج میں شامل اب وہ بچے اور بچیاں آج لاپتہ افراد کی بازیابی کی تحریک کی خود قیادت کررہی ہیں۔ اس وقت بلوچستان سے تعلق رکھنے والی بلوچ خواتین اور بچیاں پورے پاکستان کے لاپتہ افراد کے لواحقین کی آواز بن چکی ہیں۔ شروع میں اسلام آباد نیشنل پریس کلب کے سامنے احتجاجی کیمپ صرف بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین پر مشتمل تھا۔ اب اس کیمپ میں خیبرپختونخواہ، گلگت بلتستان، کشمیر، سندھ اور جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے لاپتہ افراد کے لواحقین بھی موجود ہیں۔ یہ احتجاجی کیمپ پورے پاکستان کی جبری گمشدگی کے شکار افرادکے لواحقین کا ایک پلیٹ فارم بن چکا ہے۔ جہاں سے پورے پاکستان کی سیاسی سرگرمیوں کو کنٹرول کیا جارہا ہے۔ کیمپ کی قیادت کرنے والی ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور سمی بلوچ کی کال پر پورے ملک میں رضاکارانہ طورپر شٹرڈاون ہوتی ہے۔ اور ان کے حق میں ریلیاں نکالی جارہی ہیں۔ بلوچستان سمیت سندھ، جنوبی پنجاب اور دیگر علاقوں کی عوام بلوچ یکجہتی کمیٹی کی کال کو لبیک کررہی ہیں۔

جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن سمیت دیگر سیاسی جماعتیں جبری گمشدگی جیسے اہم آئینی و قانونی مسئلے سے چشم پوشی اختیار کررہی ہیں۔ شاید یہ سیاسی جماعتیں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو ناراض نہیں کرنا چاہتی ہیں۔ انہیں یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ ان اداروں کی ناراضگی کا مطلب ہے وہ اقتدار حاصل نہیں کرپائیں گی ۔ یہ وہی ادارے ہیں جو حکومتیں بناتے اور گراتے ہیں۔

اس ڈر و خوف کی وجہ سے ملک میں مصلحت پرستی کی سیاست چل رہی ہے۔ لیکن یہ جماعتیں بھول چکی ہیں کہ مصلحت پرستی کی سیاست کرنے سے جماعتیں مستحکم نہیں ہوسکتیں۔ سیاسی قیادت کو ایک فیصلہ کرنا ہوگا۔ انہیں عوام کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا یا اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ۔

اس طرح کی خاموشی سے ملک میں ایک انسانی حقوق کا مسئلہ پیدا ہوگیا ہے۔ جس سے نا صرف ان جماعتوں کی عوامی مقبولیت ختم ہورہی ہے بلکہ ملک میں سیاسی کلچر کا بھی خاتمہ ہورہا ہے۔ جو مستقبل میں سیاست میں ایک بھیانک قسم کا عمل شروع ہوگا۔ جس سے ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی کا خاتمہ ہوگا۔ اور سول نافرمانی کی تحریکیں جنم لیں گی۔

پیپلز پارٹی جبری گمشدگی سے متعلق گندی سیاست کررہی ہے۔ پیپلز پارٹی بلوچستان کے رہنما بلوچستان میں اپنے جلسوں میں جبری گمشدگی جیسے اہم مسئلے کا مذاق اڑارہے ہیں۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی بلوچستان کے رہنما جمال رئیسانی اسلام آباد پریس کلب کے باہر بلوچ یکجہتی کمیٹی کے احتجاجی دھرنے کے مد مقابل آگئے۔ انہوں نے وہاں اپنا ایک الگ کیمپ لگادیا ہے۔ اور لاپتہ افراد کے لواحقین کے خلاف بیانات دے رہے ہیں۔ اور وہ ریاستی بیانیہ کی پرچار کررہے ہیں ۔ یہ عجیب بات ہے کہ حکومت بھی ان کی اپنی ہے۔ اور مطالبات بھی اپنی حکومت سے کررہے ہیں۔ اس عمل سے وہ کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟۔ کیا حکومتی رٹ ختم ہوگئی ہے۔ کیا حکومت ناکام ہوچکی ہے؟۔ اگر دہشتگرد طاقت ور ہیں تو یہ حکومت کا کام ہے کہ وہ دہشتگردوں کو گرفتار کریں۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے کیمپ میں نہتی خواتین اور بچیاں ہیں۔ جو کئی سالوں سے اپنے پیاروں کی بازیابی چاہتے ہیں۔ ان کی ڈیمانڈ بھی آئینی و قانونی ہے۔

اس وقت پیپلز پارٹی کی قیادت بے نظیر بھٹو کے صاحبزادے بلاول بھٹو کررہے ہیں۔ ان کی والدہ بے نظیر بھٹو نے ملک میں قانونی کی حکمرانی کی جدوجہد کی۔ انہوں نے ہمیشہ جمہوریت کی پاسداری کی۔ آمرانہ سوچ کے خلاف آواز بلند کی۔ وہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے سامنے کبھی نہیں جھکی۔ وہ ایک عوامی لیڈر تھی۔ لیکن صد افسوس کے ان کے صاحبزادے بلاول بھٹو عوام کو طاقت کا سرچشمہ ماننے کی بجائے اسٹیبلشمنٹ کو طاقت کا سرچشمہ سمجھتےہیں ۔ جس کی وجہ سے آج پیپلز پارٹی عوامی پارٹی کی بجائے اسٹیبلشمنٹ کا بغل بچہ بن چکی ہے۔
اسی طرح مسلم لیگ ن بھی جبری گمشدگی پر خاموش تماشائی بن چکی ہے۔ حالانکہ مسلم لیگ ن جب اپوزیشن میں تھی تو مریم نواز نے کوئٹہ میں ایک تقریب کے دوران لاپتہ افراد کے لواحقین کو اپنے جلسے میں مدعو کیا تھا اور کہا تھا کہ جبری گمشدگی ماروائے قانون ہے۔ اور جعلی مقابلے ماورائے عدالت قتل ۔ مریم نواز نے یقین دہانی کروائی تھی کہ جب ان کی حکومت آئیگی وہ ملکی آئین و قانون کے تحت لاپتہ افراد کے مسائل حل کرینگی۔ جب ان کی جماعت اقتدار میں آئی تو انہوں نے اس اہم انسانی مسئلے کو نظرانداز کردیا۔

سیاسی جماعتوں کی جبری گمشدگی پر خاموشی سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ سیاسی جماعتوں میں سیاسی ہمت و جرات نہیں رہی وہ سچ کو سچ بول سکتے ہیں نا ہی جھوٹ کو جھوٹ ۔ یہ عمل خود ان کی سیاسی خودکشی ہوگی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔