بلوچستان سے جبری گمشدگیوں کے خلاف طویل بھوک ہڑتالی کیمپ کو آج 5294 دن مکمل ہوگئے، مختلف طبقہ فکر کے لوگوں نے کیمپ آکر ماما قدیر و لاپتہ افراد کے اہلخانہ سے اظہار یکجہتی کی-
کیمپ آئے وفد سے اظہار خیال کرتے ہوئے ماما قدیر بلوچ نے کہا اس سخت ترین سردی میں ہمارا طویل احتجاجی کیمپ کوئٹہ میں جاری ہے اور اس پرامن احتجاج کے توسط سے ہم نے حکومت اور لاپتہ افراد کے لئے بنائے گئے کمیشن اور کمیٹیوں سے بار ہا مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس معاملے کو سنجیدگی سے حل کریں لیکن تاحال اس طویل دؤرانیہ میں ہمیں کوئی نتیجہ خیز رزلٹ نہیں ملا۔
انہوں نے کہا اس سے صاف ظاہر ہے کہ ریاست لاپتہ افراد کے معاملے کو حل کرنے میں سنجیدہ نہیں اور نا ہی بلوچستان میں جاری ریاستی تشدد کو روکنے میں کوئی کردار ادا کررہی ہے بلکہ اس تشدد اور جبری گمشدگیوں کو ریاست خود جواز پیش کرکے بلوچستان میں جاری رکھنا چاہتی ہے-
ماما قدیر بلوچ نے کہا جبری گمشدگیوں کے جو واقعات ہیں وہ دو دھائیوں سے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں جاری ہے اور آئے روز لوگوں کو ماوارئے قانون و عدالت اُٹھا کر سالوں لاپتہ رکھا جاتا ہے اور بعد ازاں ان افراد کی لاشیں ملتی ہے یا انھیں جعلی مقابلوں میں قتل کرکے مختلف تنظیموں سے جوڑا جاتا ہے۔ ماورائے عدالت قتل کے واقعات میں حالیہ دؤر میں مزید اضافہ ہوا ہے-
انکا کہنا تھا جو انسانیت سوز ریاست کی جانب سے بلوچستان میں جاری ہیں ان پر عالمی اقوام اور انسانی حقوق کے اداروں کو بیٹھ کر سوچنا چاہیے اور اقدامات اُٹھانے چاہیے تاکہ بلوچ نسل کشی کو روک کر پاکستان کو جوابدہ کیا جاسکے-
ماما قدیر بلوچ نے مزید کہا ہمارا طویل احتجاج بلوچستان میں جاری فوجی کاروائیوں اور انسانی حقوق کی پامالیوں کو دنیا کے سامنے بے نقاب کرتی رہیگی تب تک جب تک ریاست کی جانب سے غیرقانونی اعمال کو روک کر ماوارئے عدالت لوگوں کو لاپتہ رکھنے کا سلسلہ بند نہیں کیا جاتا ہے-