پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں بلوچ نسل کشی ، جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج کیمپ آج 35 ویں روز جاری ہے۔
کیمپ میں بلوچستان بھر سے جبری لاپتہ افراد کے لواحقین کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔
آج ماورائے عدالت قتل بالاچ مولا بخش کی والدہ فضیلہ بی بی اور بہنیں نجمہ بلوچ اور سلمہ بلوچ اسلام آباد میں جاری دھرنا گاہ پہنچ گئیں۔ ان کے والد مولابخش اور دو بھائی محمد یونس اور اجمل مولابخش پہلے سے دھرنے کا حصہ ہیں۔
دھرنے میں در محمد مسوری بگٹی کے لواحقین شامل ہیں جو 2014 سے جبری گمشدگی کے شکار ہے، انکے لواحقین کا کہنا ہے کہ اس وقت ڈیرہ بگٹی میں دو سو کے قریب خاندان ہے جو اسلام آباد دھرنے میں شامل ہونا چاہتے ہے مگر انہیں ریاستی ڈیتھ اسکواڈ کے جانب سے دھمکایا جا رہا ہے کہ اگر انہوں نے دھرنے میں شرکت کی تو ان کے پیاروں کو مار دیا جاہے گا ۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کے مطابق اس وقت ستر سے زیادہ جبری گمشدگی کے شکار افراد کے لواحقین اسلام آباد دھرنے میں موجود ہیں اور دن بہ دن ان میں اضافہ ہوتا جارہا ہے جبکہ بلوچستان سے مزید لواحقین اس دھرنے میں شرکت کرنے کے لیے رابطہ کررہے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ یہ ان لوگوں کے لیے پیغام ہے جو کہتے تھے کہ”لاپتہ افراد کی تعداد چند ہے”
آپ اندازہ لگائے بلوچستان سے سینکڑوں کلو میٹرز دور اسلام آباد میں اتنے لواحقین جمع ہورہے ہیں تو بلوچستان کے گاؤں اور دیہاتوں میں جبری گمشدگی کے شکار افراد کی تعداد ہماری توقعات سے کئی زیادہ ہوگی۔