بلوچ نسل کشی کے خلاف لانگ کے شرکاء نے آج ڈیرہ غازی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ 25 روز سے جاری بلوچ نسل کشی اور بلوچ فرزندوں کی جبری گمشدگی کے خلاف جاری اس تحریک سے ہر کوئی واقف ہے۔ بلوچستان میں شہید بالاچ، شہید شکور، شہید سیف اور شہید ودود کی غیر انسانی طریقے اور انہیں فیک انکاؤنٹر میں نشانہ بنانے کے خلاف جو تحریک کیچ میں شروع ہوئی تھی آج وہ کوہِ سلیمان کے دل بند ڈی جی خان پہنچ چکا ہے۔ خضدار سے شال پہنچنے تک ریاست نے جو رکاوٹیں کھڑی کیں، ماؤں اور بہنوں پر جو تشدد کیا گیا اور جس طرح مارچ کے شرکا کو ڈرایا دھمکایا گیا اس سے بھی سب واقف ہیں جبکہ ڈیرہ غازی خان تک پہنچنے سے پہلے لانگ مارچ کو ڈی جی خان کی سطح پر ناکام بنانے کیلئے ریاست نے تمام حدیں پار کر دی۔ لانگ مارچ کو ویلکم کرنے کیلئے آنے والوں پر جس طرح تشدد ہوا، خواتین سمیت نوجوانوں کی جس طرح گرفتاری ہوئی اور انہیں جس طرح جبر کا نشانہ بنایا گیا، اس کی مثال شاید یہاں نہ ملیں۔ ایک پرامن مارچ، جس کے ڈیمانڈ صرف لوگوں کی زندگیاں ہیں۔ ڈیمانڈ میں ڈیتھ اسکواڈز، سی ٹی ڈی جیسے دہشتگرد اداروں کی غٰیر فعالیت، بلوچستان میں جاری نسل کشی کا خاتمہ اور لوگوں کو اٹھانے، جبری گمشدگی کا نشانہ بنانے کا خاتمہ اور لاپتہ افراد کی بازیابی ہے لیکن بلوچستان میں جاری اس پرامن مارچ سے ریاست اتنا خوفزدہ ہو چکی ہے کہ ہر جگہ جہاں مارچ گزر رہا ہے، ہزاروں کی تعداد میں لوگ اس کا حصہ بن رہے ہیں تو ان پر ایف آئی آر کاٹے جا رہے ہیں۔ کیا ہزاروں افراد پر ایف آئی آر کاٹ کر ریاست اپنی جگ ہنسائی کا سبب نہیں بن رہی، جو بھی اقدامات ریاست اٹھا رہی ہے یہ کسی بھی طرح بلوچوں کے حوصلے پست نہیں کرینگے جن پر ریاست گزشتہ دو دہائیوں سے ظلم کے پہاڑ توڑ رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ لانگ مارچ سے ہمارا ارادہ ڈی جی خان میں پہنچ کر، رات کو قیام کے بعد پرامن لانگ مارچ کرکے نکلنے کا تھا لیکن ریاست ہمیشہ کوشش کرتی ہے کہ جبر کے ذریعے پرامن جدوجہد کا خاتمہ کرسکیں۔ اس لیے ڈی جی خان کو سیل کرنا، ناکہ بندیاں کرنا، گرفتاری اور تشدد کرنا، مذاکرات کے نام پر لوگوں کو اٹھانا اور ایسے تمام اقدامات شامل ہیں جو اس لانگ مارچ کو ناکام بنانے کیلئے کیے گئے ہیں۔ لیکن آج بھی ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے شرکت کرتے ہوئے ریاست پر واضح کر دیا ہے کہ بلوچ قوم اب مزید ایسے دہشتگرانہ اقدامات سے اپنی جدوجہد سے کسی بھی صورت پیچھے نہیں ہٹے گی۔ اس وقت ریاست نے بلوچستان میں آگ لگائی ہوئی ہے، ایسا کوئی علاقہ، کوئی شہر کوئی گاؤں نہیں جہاں سے لوگوں کو اٹھانے اور قتل کرنے کا سلسلہ جاری نہیں ہے۔ اب بلوچ قوم کے پاس ان مظالم کے خلاف جدوجہد کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔ اس لیے مکران سے نکلنے والی اس تحریک میں بلوچستان کے ہر علاقے اور گاؤں سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ جڑے رہے ہیں۔ لانگ مارچ کو ویلکم کرنے کیلئے ہر جگہ ہزاروں لوگ جمع ہوئے ہیں اور ریاست پر واضح کر دیا ہے کہ اب بلوچ قوم متحد اور ریاستی جبر کے خلاف ایک قوت کے طور پر موجود ہے۔ ڈی جی خان میں ریاست نے تشدد کا راستہ اختیار کرکے اپنی خود کی بنائی گئی مصنوعی لکیروں کو روند ڈالا ہے اور انہیں بلوچ ہونے کی سزا دی ہے۔ ان اقدامات سے ریاست نے ڈیرہ غازی خان کے غیور بلوچوں پر واضح کر دیا ہے کہ بلوچ چاہے مکران سے ہوں یا ڈیرہ غازی خان سے ریاست ان کی شناخت کی بنیاد پر ان کے خلاف بھرپور طاقت استعمال کرے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ریاستی ان اقدامات کے خلاف بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے ڈی جی خان میں کل رات سے دھرنا دیا گیا اور آج ریلی میں ہزاروں افراد نے شرکت کرتے ہوئے بلوچ قوم کے ساتھ اپنی یکجہتی کا بھرپور مظاہرہ کیا ہے۔ دھرنے میں بنیادی ڈیمانڈ ان افراد کی رہائی تھی جنہیں گزشتہ دو دنوں سے لانگ مارچ کو ناکام بنانے کیلئے لاپتہ کیا گیا تھا۔ لاپتہ ہونے والوں کی رہائی اور ریاستی اداروں کی جانب سے اس بات کی یقین دہانی کہ لانگ مارچ کے ڈی۔جی خان سے نکلنے کے بعد یہاں سے اب کسی کو اٹھایا نہیں جائے گا۔ ہم ڈیرہ غازی خان میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی طرف سے یہیں سے دھرنے کا اختتام کرتے ہیں جبکہ کل لانگ مارچ ڈیرہ غازی خان سے نکل کر وفاق کی جانب جائے گی۔ اسلام آباد میں گزشتہ 20 دنوں سے پہلے سے ہی لاپتہ افراد کے لواحقین دھرنا دیے بیٹھے ہیں جہاں لانگ مارچ انہیں جوائن کر لے گی۔ جبکہ کل تونسہ، راجن پور اور ڈیرہ جات کے غیور بلوچوں سے رخصتی پروگرام میں بھرپور شرکت کرنے کی اپیل کرتے ہیں۔ لانگ مارچ کل 9 بجے گدائی چنگی سے روانہ ہوگی جبکہ تونسہ کے غیور بلوچوں سے مارچ کو ویلکم کرنے کی اپیل کرتے ہیں۔ تونسہ سے پھر ڈی آئی خان اور بعدازاں اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ جائے گی۔ تونسہ کے غیور بلوچوں سے بھرپور استقبال کی امید رکھتے ہیں۔ ہماری یہ تحریک بلوچ نسل کشی کے اختتام تک اسی شدت کے ساتھ جاری رہے گی۔