ڈنمارک کی پارلیمنٹ نے ایک نئے قانون کی منظوری دی ہے جس کے تحت ملک میں کسی بھی مقدس کتاب کی بے حرمتی کو غیر قانونی فعل قرار دیا گیا ہے۔ یہ قانون سازی ملک میں کچھ اسلام مخالف سرگرم لوگوں کی جانب سے قرآن کی برسر عام توہین کے حالیہ سلسلے کے بعد جمعرات کے روز کی گئی جس کے سبب اسلامی ملکوں میں اس کے خلاف مظاہرے ہوئے اور اس پر غم و غصے کا اظہار کیا گیا۔
اسکینڈے نیویا کے اس ملک کو باہر کی دنیا میں ایک ایسی جگہ کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو دوسرے ملکوں کی ثقافتوں، مذاہب اور روایات کی توہین کرنے اور انہیں بدنام کرنے میں سہولت فراہم کرتی ہے۔ ڈنمارک کی وزارت انصاف کا کہنا ہے کہ اس قانون کا مقصد منظم انداز میں دوسروں کا مضحکہ اور مذاق اڑانے کا سد باب کرنا ہے، جس نے دیگر باتوں کے علاوہ ڈنمارک میں دہشت گردی کے خطرے کو شدید کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
وزیر انصاف پیٹر ہیمل گارڈ نے ایک بیان میں کہا کہ ہمیں ڈنمارک اور یہاں کے لوگوں کی سیکیورٹی کا تحفظ کرنا ہوگا۔ اسی لئے یہ بات اہم ہے کہ اب ہمارے پاس اس قسم کی منظم کارروائیوں کے خلاف، جو ہم ایک طویل عرصے سے دیکھتے آرہے ہیں بہتر تحفظ موجود ہے۔
ڈنمارک کی پارلمنٹ نے ستتر کے مقابلے میں چورانوے ووٹوں کی اکثریت سے اس قانون کی منظوری دی۔ جب کہ آٹھ قانون سازوں نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔
نئے قانون کے تحت عوامی سطح پر یا وسیع دائیرے میں کسی مقدس مذہبی تحریر کی توہین کو جرم قرار دیا گیا ہے۔
سوشلسٹ پیپلز پارٹی کی کیرینا لورنٹزن نے اس قانون سے اختلاف کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ کیا ایران یا پاکستان یا سعودی عرب اپنے کسی ایسے قانون کو تبدیل کریں گے، جسکے سبب، ڈنمارک کسی کارروائی پر توہین محسوس کرے۔ انہوں کہا کہ نہیں وہ ایسا نہیں کریں گے۔
نقل مکانی کے مخالف، ڈنمارک ڈیمو کریٹس کے انگر اسٹوج برگ نے کہا کہ نیا قانون اسلام کے سامنے سر تسلیم خم کرنا اور ان ملکوں کے آگے جھک جانا ہے جن کی اقدار ہماری اقدار سے مختلف ہیں۔
ڈنمارک کی ملکہ مارگریتھ کے دستخطوں کے بعد یہ باقاعدہ قانون بن جائے گا۔
اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو جرمانے یا دو سال تک کی سزائے قید ہو سکتی ہے۔