بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے میڈیا میں جاری کردہ بیان میں بلوچستان میں پاکستان کی جانب سے ہونے والی بربریت و سفاکیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ستر کی دہائی میں پاکستانی آرمی نے تمام عالمی قوانین کو روندتے ہوئے بنگالیوں کا قتل عام اور نسل کشی کی۔ اِس پر عالمی اداروں کی خاموشی نے پاکستان کو نسل کشی پر استثنیٰ دیکر اس عمل کو جاری رکھنے کا سرٹیفکیٹ دیدیا۔ آج یہی پاکستان بلوچستان میں بلوچ نسل کشی میں مصروف ہے۔ بلوچ بچے، جوان، بوڑھے اور عورتیں مسلسل فوجی بندوقوں اور جنگی جہازوں کی سایے میں زندگی بسر کرکے ذہنی مریض بن چکے ہیں اور اسی طرح ہزاروں بچے، جوان، بوڑھے اور بلوچ عورتیں پاکستانی فوج کے ہاتھوں اغوا ہوکر سالوں سے لاپتہ ہیں۔ہزاروں بلوچ قتل کئے جاچکے ہیں۔
مرکزی ترجمان نے کہا کہ اب پاکستانی فورسز بلوچ سیاسی جہد کاروں کے رشتہ داروں کو تنگ کرنے اور اغوا کرنے کا سلسلہ شروع کر چکے ہیں۔ گزشتہ رات پسنی وارڈ نمبر 6 میں پاکستانی فورسز نے شہید صابر بلوچ کے گھر میں گھس کر ان کی بہن پر پٹرول چھڑک دی اور بوڑھی بیمار ماں کو ذہنی اذیت کا نشانہ بنایا۔ شہید صابر بلوچ ولد محمد کو پاکستانی فورسز نے 4 اگست 2014 کو اُٹھاکر لاپتہ کیاتھا اور 2 نومبر 2016 کو ان کی مسخ شدہ لاش گوادر میں ہسپتال انتظامیہ کے حوالے کی اور انہیں انکاؤنٹر میں مارنے کا جھوٹا ڈرامہ رچایا۔ شہید صابر کے ساتھ دیگر تین لاپتہ بلوچوں کی لاشیں پھینکی گئیں۔ ان میں کمسن ظفر بلوچ، صلاح الدین اور ساجد علی شامل تھے۔ پاکستان کے اس عمل سے کئی افراد اپنے شہر اور گھر چھوڑ کر جلا وطن ہوگئے ہیںیا دوسری محفوظ جگہوں کو ہجرت کر گئے ہیں۔ شہید صابر کے خاندان کے مرد اشخاص بھی اپنا علاقہ پسنی چھوڑ کر دوسری جگہوں کو منتقل ہوگئے ہیں۔ حالیہ واقعے میں پاکستانی فورسز نے شہید صابر کے گھر گھس کر دھمکی دی ہے کہ شہید صابر کے بھائیوں کو پسنی بلاکر ہمارے حوالے کیا جائے، بصورت ان کی بہن کو اُٹھا کر لے جایا جائے گا۔ گھروالوں کو خدشہ ہے کہ صابر بلوچ کی طرح دوسرے بھائیوں کو بھی اسی طرح قتل کیا جائے گا۔ اسی خوف کی وجہ سے وہ اپنا آبائی علاقہ چھوڑ چکے ہیں۔ اس دھمکی کے ساتھ گھر والوں پر پٹرول بھی چھڑکی گئی ہے، جو تمام انسانی حقوق اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
اسی طرح گزشتہ دنوں بلوچستان کے شہر حب میں بی این ایم کے سینئر جلاوطن رہنما ظفر علی بلوچ کے گھر کی کھڑکی اور دروازے توڑ کر خالی گھر پر قبضہ کیا گیا۔ گوکہ چوبیس گھنٹے کے بعد کسی مداخلت کے بغیر فورسز گھر چھوڑ کر قبضہ ختم کرکے واپس چلے گئے لیکن یہ پوری فیملی کو ذہنی باؤ میں رکھنے کی ایک گھناؤنی پالیسی ہے۔ واضح رہے یہ گھر خاندان کی طرف سے اُس وقت خالی کی گئی جب 23 اکتوبر 2013 کو اس گھر سے ظفر علی بلوچ کے کزن سفر علی ولد قادر بخش کو پاکستانی فورسز نے اُٹھاکر لاپتہ کیاتھا، جو تاحال لاپتہ ہیں۔ اسی طرح سفر علی کے کزن بی ایس او آزاد کے رہنماشبیر بلوچ کو پاکستانی فورسز نے 4 اکتوبر 2016 کو گورکوپ کیچ سے اُٹھاکر لاپتہ کیا ہے۔ اب ان کی فیملی کوبھی مسلسل دھمکیاں دی جارہی ہیں ۔
ترجمان نے مزید کہا کہ سیاسی جہد کاروں کو پاکستانی فوج و دوسری اداروں کی جانب سے مسلسل دھمکیوں کا سامناہے کہ وہ بلوچ قوم کی سیاست سے باز آئیں بصورت دیگر ان کے خاندان کو انتہائی نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کئی جلا وطن بلوچوں سمیت بلوچستان میں جد و جہد کرنے والے بی این ایم و دوسری جماعتوں کے کارکنوں و رہنماؤں کے رشتہ داروں کو پاکستانی فورسز نے اُٹھاکر لاپتہ کیا ہے یا قتل کیا ہے۔ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے ادارے اس بات کا نوٹس لیکر پاکستان کو قانون کے کٹہرے میں لائیں۔