اجتماعی لاشعور اور بلوچ جدوجہد
تحریر: مھگونگ بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
جب ایک طاقتور سامراج کو احساسِ کمتری محسوس ہونے لگتا ہے کہ وہ باقی ریاستوں سے معاشی حوالے سے پیچھے رہ گیا ہے تو وہ ایک گیم کھیلتا ہے تہذیب، ترقی پسند سوچ، انسانیت کی فلاح و بہبود اور اچھے مذہب کا پلے کارڈ اور پوسٹر اٹھاتا ہے اور نئے سفر کی طرف گامزن ہوتا ہے۔ اُس کا حدف ایسی سرزمین کی حدیں عبور کرنا ہوتی ہیں جو وسائل سے مالا مال نظر آتی ہیں۔ جب یہ لٹیرے اور ڈاکو جہازراں سمندر پار دوسرے خطے پر قدم رکھتے ہیں تو ظاہر یہ کراتے ہیں کہ اُن کے پاس بہتر مذہب اور خوبصورت تہذیب ہے اور وہ صرف انسانیت کا بول بالا کرنے اور انہیں مہذب بنانے آئے ہیں تو یہ واضح رہے کہ حملہ آور صرف مہذبانہ طریقے سے ظلم و جبر ہی کر سکتا ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں وہ گِدھ کی طرح غلاموں کا گوشت نوچتا ہے لاشوں کا انبار اکٹھے کرتا ہے پھر اُسی انبار کو آگ لگا کر جلتے خون کی بو سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ نفسیات کی رو میں اِسے (sadism) کہتے ہیں مطلب کسی کو تکلیف میں دیکھ کر خوش ہونا. غلام کو نوآبادکار کبھی بھی انسان کا درجہ نہیں دیتا اور پھر کچھ سامراج یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ ہم تو انسانیت کی بہتری اور برابری چاہتے ہیں تو یہ واضح رہے نوآبادکار اور نوآبادیاتی لوگوں میں کوئی رشتہ نہیں ہوتا اور اگر ہوتا بھی ہے تو صرف حاکم اور محکوم کا رشتہ ہوتا ہے جس میں کسی بھی پہلو پہ کوئی برابری نہیں ہوتی۔
کالونائزر صرف جسمانی تشدد نہیں کرتا بلکہ نفسیاتی تشدد بھی کرتا ہے مگر وہ تشدد اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں کرواتا ہے جس میں وہ سردار ،وڈیرے اور جاگیرداروں کو اپنا ہتھیار بناتا ہے اب یہ (Brianless elites) مقامی باشندوں اور نوآبادکار کے درمیان آ جاتے ہیں اور پھر اِس طرح کے ہتھکنڈوں سے ظلم و جبر کرتے ہیں کہ مقامی آبادی غربت ،بدحالی ،بیماری اور بے بسی کے جال میں پھنستا جاتا ہے۔ یہ سب کام اتنے (systematic) انداز میں کئے جاتے ہیں کہ مقامی آبادی کو پتہ ہی نہیں چلتا حالانکہ وہ ان کا ذکر بھی کرتے ہیں آپس میں (discuss) بھی کرتے ہیں لیکن اس کے باجواد وہ وجہ معلوم نہیں کر پاتے کیونکہ ان کے ہاں( conscious awareness) نہیں ہوتی اس لیے کالونائزیشن کے عمل کے ابتداء میں انسان مذہب کو اپنا سہارا بنا لیتا ہے جیسے (fanon) نے کہا تھا کہ نوآبادکار کے آنے کے بعد مقامی باشندے مذہبی عقائد کا سہارا لیتے ہیں لیکن سامراج اتنا (humiliate) کرتا ہے جس میں وہ وحشیانہ حربے اپنا کر وہاں کی آبادی کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک روا رکھتا ہے اور مقامی لوگوں میں ان کے جانوروں والی جبلتیں جو ارتقا میں کہیں دب چکی ہوتی ہیں وہ جبلتیں جو قدیم انسان یا یوں کہہ لیجیے حیوانوں میں تھیں انہیں جگاتا ہے اب مقامی آبادی کے افراد میں غصہ، نفرت اور حسد پیدا ہوتا ہے قبضہ گیر سامراج کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ وہ مقامی آبادی کو (pseudo human) بنائے اور اس میں کافی حد تک وہ کامیاب بھی رہتا ہے اور اب آتے ہیں بلوچ سرزمین کے وارث اور ہزاروں سالوں سے اِس دھرتی پہ آباد بلوچ قوم کی طرف اور دیکھتے ہیں کہ جب دنیا کہ ہر غلام کے اندر (political reppression) کے باعث غصہ اور نفرت پیدا ہوتا ہے تو بلوچ کا ایک جبلت جو کہ مزاحمت ہے بیدار ہو جاتا ہے مزاحمت بلوچ کے اجتماعی لاشعور میں موجود ہے جب پوری دنیا کہ انسان (competition for survival) میں مصروف ہیں تو بلوچ اِس وقت بھی اپنے سر زمین کے دفاع کو اپنی بقا سمجھتا ہے یہ مزاحمت ہمارا ورثہ ہے یعنی کہ بلوچ کو یہ اجتماعی لاشعور سے ملا ہے کارل ژونگ جو کہ ایک بڑے ماہرِ نفسیات ہیں انہوں نے اجتماعی لاشعور کا ایک نظریہ دیا جس میں انہوں نے ایک بہت اہم بات کی کہ (people don’t have ideas ,ideas have people)
مطلب اگر انسان یہ سمجھتا ہے کہ وہ اپنے سارے فیصلے خود شعوری طور پر کر رہا ہے تو وہ کچھ حد تک غلط ہے کیونکہ انسان کا ذاتی لا شعور اور اجتماعی لا شعور اُس کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
انسان کے اندر انفرادی لاشعور کے علاوہ اجتماعی لاشعور بھی ہوتا ہے دونوں میں بنیادی فرق یہ ہے کہ انفرادی لاشعور صرف ایک شخص کے اپنے ذاتی تجربات اور خیالات کی بنیاد پر ہوتا ہے جبکہ اجتماعی لاشعور جیسا کہ نام سے محسوس ہو رہا ہے کہ اجتماع کا لاشعور یعنی نسل در نسل باپ دادا سے حاصل ہونے والی مجموعی ڈیٹا جو ہمارے (unconscious) میں محفوظ رہتے ہیں ایسی یادیں اور تحریکیں جس سے انسان آگاہ نہیں ہوتا مگر اس کے آباؤاجداد نے تجربے کی بنیاد پہ حاصل کیے ہوتے ہیں ارتقا کے مرحلوں سے گزرتے ہوئے جسمانی خصوصیات کے ساتھ ساتھ یہ نفسیاتی نقوش بھی نسل در نسل منتقل ہوتے ہیں تو بلوچ کو سب سے بڑا اور اہم چیز جو اجتماعی لاشعور میں ملا ہے وہ مزاحمت ہے اور اپنی سرزمین کے لیے لڑنا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ بلوچ اپنے حق اور سرزمیں کے دفاع میں کھڑا رہا ہے کیونکہ بلوچ حق کیلئے سرجھکانے سے سر کٹانے کو بہتر سمجھتا ہے اِس لیے بلوچ شاعری ،کہانیاں اور ہماری ماؤں کی لوریاں ہمیں شجاعت ،غیرت اور بہادری سکھاتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ بلوچ سرزمین پہ پیدا ہونے والا ہر بچہ جو کہ اپنے باپ کے سائے میں بڑا ہونے کی بجائے ظلم کے سائے میں پروان چڑھتا ہے وہ اپنے چھوٹے چھوٹے معصوم ہاتھوں سے (sign of victory) بنا سکتا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔