افغانستان : طالبان کے خلاف سترہ سال بعد بی باون طیاروں سے بمباری شروع

357

افغانستان میں امریکی فضائیہ نے سترہ سال بعد سب سے تباہ کن بمبار طیاروں بی فٹی ٹو کا دوبارہ استعمال شروع کر دیا ہے اور اطلاعات کے مطابق ان طیاروں کے ذریعے شمالی صوبے بدخشاں میں طالبان کے تربیتی مراکز کو نشانہ بنا گیا ہے۔

بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے مطابق بدخشاں صوبے میں تاجکستان اور چین کی سرحدوں کے قریب علاقوں کو نشانہ بنایا گیا۔

بی فٹی ٹو بمبار طیاروں کو افغانستان میں اس سے قبل سنہ 2001 میں استعمال کیا گیا تھا جب امریکی فوج کا مقصود طالبان کی حکومت کو ختم کرنا اور پاکستان کی سرحد کے قریب تورہ بورہ کے پہاڑوں میں القاعدہ کے رہمنا اسما بن لادن کی پناہ گاہوں کو تباہ کرنا تھا۔

بی فٹی ٹو بمبار طیاروں کو دوبارہ استعمال کرنے کے مقصد کے بارے میں امریکی فضائیہ کی طرف سے کوئی وضاحت سامنے نہیں آئی ہے لیکن کہا جاتا ہے کہ اس علاقے میں جسے نشانہ بنایا گیا ہے وہاں پر طالبان کے ٹھکانوں کے علاوہ چین کے صوبے سنکجیانگ سے تعلق رکھنے والے اوغر شدت پسند بھی سرگرم ہیں۔ کچھ اطلاعات کے مطابق افغانستان کے اس دور افتادہ اور انتہائی کم آبادی والے علاقے میں ترکمانستان اسلامی موومنٹ کے مراکز اور تریبت گاہیں بھی قائم ہیں۔

یاد رہے کہ اس علاقے میں امریکہ نے پوری قوت سے بمباری ان خبروں کےبعد کی ہے جن کے مطابق چین اس علاقے میں ترکمانستان اسلامی موومنٹ اور اوغر شدت پسندوں کی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے ایک فوجی اڈہ قائم کرنے کے لیے افغانستان کی حکومت سے مذاکرات کر رہا ہے۔

افغانستان میں دفاعی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ بی باون طیاروں کا دوبارہ استعمال افغانستان میں امریکی حکومت کی نئی دفاعی حکمت عملی کا حصہ ہے جس کے تحت طالبان کو کمزور سے کمزور تر کرنے کی کوشش کرنا ہے۔

گزشتہ روز افغانستان میں طالبان تحریک نے امریکی عوام اور کانگریس کے ارکان کے نام ایک کھلے خط میں مذاکرات کی پیش کی تھی جسے نیٹو نے مسترد کر یا ہے۔

ماہرین ان خدشات کا اظہار بھی کر رہے ہیں کہ چین اور ترکمانستان کی سرحدوں کے قریب بمباری سے خطے کے ملکوں کے ساتھ کشیدگی بھی بڑھ سکتی ہے۔

افغانستان کے دارلحکومت کابل میں گزشتہ چند مہنیوں میں طالبان اور دولت اسلامیہ نامی شدت پسند تنظیم نے کئی بڑی بڑی کارروائیاں کی ہیں جن میں سینکڑوں لوگ ہلاک ہو ئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی یہ خبریں بھی سامنے آئی ہیں کہ افغانستان کے ستر فیصد علاقے پر طالبان کی عملداری قائم ہے۔