افغانستان کی طالبان حکومت نے جمعے کو اعلان کیا کہ چین نے اس کے سفیر اسد اللہ بلال کریمی کو باضابطہ طور پر تسلیم کر لیا ہے۔ انہوں نے اسے دو پڑوسی ملکوں کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات میں ایک اہم باب قرار دیا ۔
یہ اعلان، جس کی بیجنگ کی جانب سے تصدیق ہونی باقی ہے، چین کو طالبان کےسفیر کو تسلیم کرنے والا والا پہلا ملک بنا دے گا۔
اب تک نہ تو چین اور نہ ہی کسی دوسرے ملک نے افغانستان کی طالبان انتظامیہ کو باضابطہ طور پر تسلیم کیا ہے۔ طالبان وزارت خارجہ کے ایک سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ چینی وزارت خارجہ کے پروٹوکول ڈپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر جنرل ہانگ لی نے نو مقرر کردہ سفیر اسد اللہ بلال کریمی کی اسناد کی نقل قبول کی ہے۔ بیان میں ہانگ کا یہ کہتے ہوئے حوالہ دیا گیا ہے کہ انہوں نے کریمی کی آمد کو بیجنگ اور کابل کے درمیان مثبت تعلقات کے مزید استحکام اور توسیع میں ایک اہم قدم قرار دیا ہے۔
طالبان کے مطابق ہانگ نے جمعے کی ملاقات میں کہا ، “چین افغانستا ن کے لوگوں کے قومی اقتدار اعلیٰ اور فیصلوں کا احترام کرتا ہے ۔ وہ افغانستان کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرتا نہ ہی اس نے ماضی میں ایسا کیا ہے۔ “
کریمی نے چین کو یقین دلایا کہ افغانستان کسی کے لیے خطرہ نہیں ہے۔
” افغانستان سے کسی کو کوئی خطرہ نہیں ہے، اور علاقائی استحکام اور سلامتی سب کے مفاد میں ہے۔‘‘
نئے سفیر حال ہی میں طالبان کی قیادت کی وزارت اطلاعات میں نائب ترجمان کے طور پر کام کر چکے ہیں ۔
بیجنگ تنازع سے تباہ حال جنوبی ایشیا کے اس ملک کو دوبارہ کسی بحران میں مبتلا ہونے سے بچانے میں مدد کے لیے طالبان حکومت کے ساتھ اپنے قریبی تعلقات بر قرار رکھنے کی کوشش کرتا آیا ہے۔ تاکہ ایسے کسی بحران میں چین مخالف عسکریت پسندوں کی چینی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کے لیے افغان سر زمین کو استعمال کرنے کی حوصلہ افزائی نہ ہو سکے۔
چینی حکومت نے اس سال اکتوبر میں طالبان وفود کو اپنے گلوبل بیلٹ اینڈ روڈ فورم میں مدعو کیا تھا۔ وہ اعلیٰ سطح کا پہلا کثیر فریقی اجتماع تھا جس میں طالبان نے اقتدار دوبارہ سنبھالنے کے بعد سے شرکت کی تھی۔
گزشتہ ستمبر میں چین کابل میں اپنا سفیر مقرر کرنے والا پہلا ملک بن گیا تھا۔ دوسرے ملکوں نے یا تو اپنے سابق سفیروں کو دوبارہ متعین کیا ہے یا اپنے سفارت خانوں کے سر براہوں کو قائم مقام سفیر کی حیثیت سے مقرر کیا ہے، جومیزبان حکومت میں اسناد پیش کرنے کی متقاضی نہیں ہوتی ۔
چین کی سرکاری اور نجی کمپنیوں نے افغانستان میں سرمایہ کاری میں دلچسپی ظاہر کی ہے اور کچھ نے حالیہ مہینوں میں طالبان کے ساتھ معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔ تاہم بین الاقوامی بینکنگ سیکٹر کی پابندیوں کی وجہ سے غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے افغانستان میں بڑے پراجیکٹس شروع کرنے میں رکاوٹیں حائل ہیں۔
اگست 2021 میں، جب سے افغانستان سے امریکی قیادت والی مغربی فوجوں کے انخلا اور افغان جنگ میں ان کی بیس سالہ کردار کے خاتمے کے بعد طالبان نے ملک کا اقتدار سنبھالا ہے، لگ بھگ 20 پڑوسی اور علاقائی ملکوں نے یا تو وہاں اپنے سفارت خانوں کو فعال رکھا ہے یا سفارتی مشن دوبارہ کھولے ہیں ۔
واشنگٹن اور دوسرے مغربی ملکوں نے اپنے افغان سفارتی مشنز کو قطر منتقل کر دیا ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ لاکھوں افغان شہریوں کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر دی جانے والی امداد کی ترسیل بر قرار رکھ سکیں ۔