امریکہ کے بعد برطانیہ نے بھی اسرائیل اور حماس کے درمیان انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر جنگ بندی کی گئی تو اس کا حماس کو فائدہ ہو گا۔
یہ بات برطانوی وزیر اعظم رشی سوناک کے ترجمان نے بدھ کے روز کہی ہے۔ دوسری جانب اسرائیلی فوج نے غزہ پر اپنی بمباری میں مزید شدت پیدا کر دی ہے۔ یہ شدت منگل کے روز سے زیادہ دیکھنے میں آرہی ہے۔
برطانوی وزیر اعظم کے ترجمان نے کہا ‘ برطانیہ جنگ میں وقفے کا تو حامی ہے تاکہ امدادی کارکنوں کو دقت نہ ہو۔ تاکہ غزہ کی پٹی تک امداد پہنچ سکے اور (بھوک پیاس سے مزید ) اموات نہ ہوں۔
تاہم ترجمان نے واضح کیا کہ ‘ برطانیہ مکمل جنگ بندی کی حمایت نہیں کرتا ۔ مکمل جنگ بندی کا فائدہ صرف حماس کو ہو گا۔ مکمل جنگ بندی کے مقابلے میں انسانی بنیادوں پر جنگ میں محدود اور مختصر وقفے بہتر ہو سکتے ہیں۔
‘یہ مختصر وقفے ایک آپریشنل حربہ کے طور بھی کام آ سکتے ہیں۔ یقیناً یہی وہ چیز ہے جس پر ہم غور کر سکتے ہیں۔
رشی سوناک کے ترجمان نے سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ کے گذشتہ روز سلامتی کونسل کے خصوصی اجلاس کے موقع پر اسرائیل کے غزہ پر حملوں کو تنقید کا نشانہ بنائے جانے 56 برس سے فلسطینیوں پر گھٹن مسلط کرنے کے موقف سے اختلاف کیا ہے۔
واضح رہے سیکرٹری جنرل نے یہ بھی کہا تھا ۔ کہ حماس کے حملے خلا سے نہیں ہوئے ہیں۔ اس پر اسرائیلی موقف ناراضی اور غصے کا سامنے آیا تھا۔ اسرائیلی سفیر نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے اس خطاب کے بعد ان کے استعفے کا مطالبہ کر دیا تھا۔
رشی سوناک کے ترجمان نے کہا ‘ ہم سیکرٹری جنرل کے خیالات سے متفق نہیں لیکن اس کے باوجود سیکرٹری جنرل کے مستعفی ہونے کا مطالبہ نہیں کرتے ۔
ہم یہ ضرور سمجھتے ہیں کہ حماس کے اسرائیل پر دہشت گردانہ حملوں کو کوئی جواز نہیں تھا۔