دانشور کی موت، ایک قصہ ناتمام ۔ حکیم واڈیلہ

208

دانشور کی موت، ایک قصہ ناتمام 

تحریر: حکیم واڈیلہ

دی بلوچستان پوسٹ

وہ کراچی سے تعلق رکھتے تھے، انہیں بچپن سے پڑھنے لکھنے کا شوق تھا، اس شوق نے انہیں سیاست کی جانب راغب کیا، سیاست کی شروعات انہوں نے کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے اسٹوڈنٹس ونگ سے کی۔ وہ کمیونسٹ پارٹی کے طلبہ ونگ میں رہکر اپنے سرکلز اور تنظیمی رہنماؤں کے سامنے بلوچ قومی سوال کو رکھ کر اس پر بحث کرتے اور حقیقی طور قومی جدوجہد کرنے کی مانگ کرتے، وہ ہمیشہ ہی بلوچ قومی سوال (قومی آزادی اور بلوچ ریاست کی بحالی) پر اٹل رہے۔

وہ بیسوی صدی کے اواخر میں شروع ہونے والی پانچویں بلوچ جدوجہد کا حصہ اس وقت بنتے ہیں جب شہید قائد واجہ غلام محمد بلوچ، بلوچ قومی آزادی کا پیغام لئے ہر ایک بلوچ گاؤں، محلہ، شہر کا دورہ کررہے تھے اور لوگوں کو شعور، آگاہی اور دعوت دینے سمیت اُن ہیروں کو تلاش رہے تھے جو بلوچ قومی تحریک کی سرفیس سیاست میں مدبر اور دانشورانہ کردار ادا کرسکتے ہوں۔

چیئرمین غلام محمد کی سنگت نے ان پر ایسا سحر کیا کہ وہ اسی سحر کے گرد اپنی زندگی گزارنے لگے۔ وہ کاروان غلام محمد کا حصہ بنکر بلوچ قومی آزادی کی تحریک میں ایک بہترین کالم نگار، دانشور، استاد کا کردار ادا کرتے رہے۔ انکا کردار، انکا قلم، انکی تعلیمات انکی زندگی بلوچ قومی سوال اور قومی غلامی کیخلاف منظم جدوجہد کی تلاش میں اس خواب کے ساتھ گزرگئی کے بلوچوں کو ایک آزاد اور خودمختار وطن کا مالک ہونا چاہیے۔

بلوچ قومی جدوجہد نے راقم کو اس رہنماء، اس بہترین دانشور اور قومی لکھاری سے ہمکنار کروایا۔ اور پھر ایک ایسا تعلق قائم ہوا کہ ہزاروں میل دور ہوتے ہوئے بھی اُنسے قربت کبھی ختم نہ ہوئی۔ اُنسے جب بھی بات ہوتی تو وہ ہمیشہ ہی بلوچ قومی سوال، بلوچ قومی آزادی، بلوچستان پر جاری بربریت، خطے کے بدلتے حالات اور بلوچ قومی تحریک کو میسر ہونے والے مواقع اور اِن مواقعوں سے فائدہ اٹھانے پر زور دیتے رہتے۔ وہ ہمیشہ اپنے قلمی ناموں سے بلوچ قومی تحریک کے حوالے تحریری شکل میں اپنے پیغامات بلوچ قوم تک پہنچانے کی کوشش کرتے رہتے تھے۔

وہ گزشتہ کئی سالوں سے قلمی ناموں سے دی بلوچستان پوسٹ میں اپنی مضامین میں تحریکی کامیابوں کو بیان کرنے سمیت، تنقیدی نقطہ نگاہ رکھتے ہوئے قومی رہنماؤں اور دوستوں سے التجاء کرتے نظر آتے کہ کس طرح قومی جدوجہد کو ایک بہترین شکل دی جاسکتی ہے۔

وہ ان پُرخطر حالات میں بھی اپنے لوگوں کے درمیان رہکر اپنی جدوجہد کو جاری رکھے ہوئے تھے، وہ اس بات پر کافی زور دیتے کہ ہمیں بلوچ قومی تحریک کو پسند اور ناپسند کی بھینٹ چڑھنے نہیں دینا بلکہ ایک ایسی تحریک بننا ہے جس کا حصہ بنکر بلوچ قوم اپنی آزادی، برابری، خودمختاری کی خاطر جدوجہد کرے۔

وہ ہمیشہ کہتے کہ ہمارے یہاں اکثر دانشور ؤ پڑھا لکھا طبقہ صرف اور صرف تلاش نوکری میں یا مخصوص طبقات کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش میں مگن رہتے ہیں۔

وہ اس امر سے بے حد مطمئن اور پرامید نظر دکھائی دیتے کہ کس بہادری، شعور اور ایمانداری سے بلوچ نوجوان بلوچ قومی جنگ اور تحریک کا حصہ بنکر اپنی شناخت اور آزادی کی جدوجہد میں عملی طور پر کردار ادا کررہے ہیں۔ وہ اکثر ہی اپنی گفتگو مثبت باتوں سے ختم کرتے۔

گزشتہ کافی سے عرصے سے مرض میں مبتلا ہونے کے باوجود بھی انکا نوحہ بلوچستان تھا، انکے لبوں پر اپنی تکلیف اور درد سے زیادہ یہ فکر رہتی کہ ہمیں اپنی تحریک کو مزید توانا کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ اس بات پر قائل تھے کہ تشدد کا جواب صرف تشدد سے ہی دیا جاسکتا ہے۔ وہ بلوچ قومی تحریک، جنگ اور بلوچ سرمچاروں کے ہر ایک عمل پر گہری نگاہ رکھتے ہوئے جامعہ اور مفصل دلائل کے ساتھ یہ کہتے بلوچوں پر ہونے والی مظالم اور عالمی قوانین کی دھجیاں اڑانے والی پاکستان اور چینی ریاست کیخلاف بلوچوں کی جدوجہد اور انکا ہر ایک طرز مزاحمت جائز اور عالمی اور انسانی قوانین کی پاسداری کے تحت ہے۔

گزشتہ ہفتے کے روز اس امید سے آنکھ کھولی کے آج اپنے دوست، ساتھی، شفیق استاد، مہربان بڑے بھائی کامریڈ گلاب سے گفتگو کرکے اُنسے مزید کچھ سیکھنے کی کوشش کرتے ہوئے اپنے اندر موجود مایوسی کو ختم کرینگے۔ مگر شاید قسمت کو کچھ اور ہی قبول تھا، ہماری آخری گفتگو کو کِلف ہینگر بنکر ہی ختم ہونا تھا۔ کیونکہ گزشتہ گفتگو اس امید اور وعدے پر ختم ہوئی تھی کہ بہت جلد بات ہوگی۔

کامریڈ گلاب ایک بہترین قومی جہدکار کے ساتھ ساتھ ایک قومی اثاثہ تھے ایک ایسا دانشور تھے کہ جنہوں نے اپنی زندگی اپنی قوم کی آزادی، بہتری اور برابری کی خاطر وقف کردیا تھا۔ کامریڈ گلاب آج ہم سے جسمانی طور پر جدا ہوچکے ہیں لیکن انکی تعلیمات انکے تجزیات، مضامین، انکے تجربے اس جدوجہد میں ہماری رہنمائی کرتے رہینگے۔

الوداع دوست۔۔۔ ایک آخری ملاقات کا منتظر۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔