ترکی کے خلاف کُردش آرمڈ اسٹرگل کتنا مظبوط ہوسکتا ہے؟
تحریر: امیر ساجدی
دی بلوچستان پوسٹ
ترکی میں کردوں کی تعداد ایک کروڑ اسی لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ یہ ترک شہری ہیں اور پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں تاہم ان کی زیادہ آبادی مشرقی ترکی میں آباد ہیں۔یہ سنی مسلمان ہیں تاہم ایک قلیل تعداد شیعوں کی بھی ہے۔بہت اچھے محب وطن لوگ ہیں، لیکن علیحدگی پسندی اور کردوں کی آرمڈ اسٹرگل، جس میں پی کے کے کے” واٸی پی جی اور امر برگیڈ” کے سوساٸڈ کیرٸر ونگز کا ایک اہم رول رہا ہے، نے پوری کرد اکثریت کو ترکی کے نظر میں خطرناک کیا ہے اور ترکی میں خوف پھیلا دیا ہے اس لٸے ترکی میں لفظ ”کردستان“ کا استعمال ممنوع ہے۔
ویسے تو عام کرد ایک اچھا خاصا مسلماں ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب ترکی میں مصطفےٰ کمال پاشا کا دور تھا تو مصطفےٰ کمال کیanti-Islam reforms کے خلاف کردوں ہی نے بغاوت کی تھی۔ایسی دو یا تین بغاوتوں کا پتا چلتا ہے،ان بغاوتوں کو سختی سے کچل دیا گیا تھا۔ترکی کے کردوں میں کسی درجے میں احساس محرومی تو تھا، شاید اسی وجہ سے انہوں نے اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے کردش ورکرز پارٹی (PKK) کی بنیاد رکھی۔
پی کے کے یعنی ”کردستان ورکرز پارٹی“ کیا ہے؟
یہ کردوں کی سیاسی و عسکری تنظیم ہے، جو ترکی اور عراق میں قائم ہے۔اس کی بنیاد 25نومبر 1978ءکو ترکی کے شہر لائس(Lice)میں رکھی گئی۔اس کا بانی عبد اللہ اوجلان ہے۔اس جماعت کی نظریاتی وابستگی مارکس-لینن کی فلاسفی سے ہے، یہ لوگ یا سیکیولر یا سوشلسٹ ہیں۔پی کے کے کا واحد ایجنڈا ترکی کی سرحدوں کے اندر ایک آزاد کردستان کا حصول ہے۔1984ءسے یہ تنظیم عسکری طور پر فعال ہے، ترکی حکومت کے خلاف ان کی عسکری جہدوجہد میں اب تک چالیس ہزار افراد مارے جا چکے ہیں ان میں کرد، ترک فوجی اور شہری سب شامل ہیں۔ اس پارٹی کو امریکہ،نیٹو ممالک،آسٹریلیا، شام، ترکی سب دہشتگرد تنظیم مانتے ہیں۔اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے دہشتگرد تنظیموں کی جو لسٹ جاری کی ہے، اس میں پی کے کے اور اس کی ذیلی تنظیم YPG شامل ہیں۔
“واٸی پی جی” کیا ہے؟
یہ ڈیموکریٹک یونین پارٹی کا عسکری ونگ ہے۔یہ گروپ 2003ءمیں PKK ہی سے نکلا ہے۔ان کا ایجنڈا بھی وہی ہے جو پی کے کے کا ہے۔البتہ یہ زیادہ انتہا پسند ہیں۔ان کے ٹریننگ کیمپ عراق، ترکی اور شام میں قائم ہیں۔مردوں کے ساتھ ساتھ عورتیں بھی ٹریننگ حاصل کر کے آرمڈ اور سوساٸڈ کیرٸینگ کارروائیوں میں حصہ لیتی ہیں۔ آجکل ترکی شام میں جو آپریشن(Operation Peace Spring)کر رہا ہے، وہ اسی YPG کے مراکز پر ہو رہے ہیں۔
طیب اردوان کی حکمت عملی
ترکی کے کردوں کا مسئلہ حل کرنے کے لیے رجب طیب اردوان نے توجہ دی۔2002ءمیں جب وہ برسر اقتدار آئے تو کردوں کے معاملے کو ترجیحی بنیادوں پر اٹھایا، ان کی شہری سہولیات میں اضافہ کیا، پی کے کے کے ساتھ مذاکرات شروع کیے اور حالات کافی سازگار ہو گئے۔لیکن 2012ءمیں جب”بہار عرب“کے نتیجے میں شام کے حالات خراب ہوئے اور وہاں خانہ جنگی شروع ہوئ تو کردوں نے آزاد کردستان کی منزل کو قریب دیکھا۔اس افراتفری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے اپنی سرگرمیاں تیز کر دیں۔لیکن ایک اور عنصر نے انہیں الجھا لیا۔یہ نیا عنصر القاعدہ اور داعش تھے۔
کردوں کی باقاعدہ جنگ داعش سے شروع ہو گئی اور کئی سال چلی۔اس دوران ترکی بالکل خاموش رہا۔کرد-داعش جنگ میں جو بھی شکست کھاتا، ترکی کا اس میں فائدہ تھا۔اگر کرد ختم ہوتے تب بھی۔اگر داعش ختم ہوتی تب بھی۔ کیونکہ ترکی نے داعش کو صرف ” ویپن آف وار“ کے طورپر کردوں کے خلاف استعمال کیا.
اس خانہ جنگی میں بہرحال کردوں کا پلہ بھاری رہا اور داعش یا القاعدہ کی ذیلی تنظیموں مصلح جھتہ النصرہ وغیرہ کو شام کے شمال مشرقی علاقوں سے نکلنا پڑا. ہالانکہ کرد علاقون میں کرد جنگجوٶں نے داعش کو وہاں سے withdraw کرنے میں کافی کامیاب ہوٸے۔اس جنگ میں کردوں کو امریکہ کی مکمل مدد حاصل تھی۔بلکہ کردوں کو اسلحے کی سپلائی کےلٸے امریکہ نے کئی بار ترکی سے راہداری مانگی، کیونکہ امریکہ آٸی ایس آٸی ایس کو اپنے لٸے ایک مستقبل خطرہ مانتی ہے اس لٸے امریکہ نے کردوں کو اس لٸے تعاون کیا تاکہ وہ آٸی ایس آٸی ایس کو صفحہ ھستی سے مٹاٸیں، ترکی نے ہر بار امریکہ کی درخواست سختی سے مسترد کردی۔
کردوں نے داعش سے نبٹنے کے بعد ترکی کا رخ کیا اور ترکی کے سرحدی علاقوں میں ان کے جھنڈے لگ گئے اور محدود سرگرمیاں شروع ہو گئیں۔ترکی ہمیشہ دھمکی دیتا رہا کہ یہ سلسلہ جاری رہا تو ترکی کو راست اقدام ”راٸیٹس ٹو سیلف ڈفینس“ کا حق حاصل ہے۔شام میں YPG کیونکہ داعش سے لڑ رہی تھی لہٰذا اسے امریکہ کی مکمل مالی اور عسکری مدد حاصل تھی۔اسی امریکی سپورٹ نے انہیں یہ حوصلہ عطا کیا کہ ترکی سے محدود جنگ چھیڑی جائے۔ایک ہفتے سے جاری حالیہ ترکی حملوں(operation peace spring)کی بنیادی وجہ یہی ہے اور ترکی نے وہاں عام شہریوں پر بمباری کرنے میں کوٸی کثر نہیں چھوڑی.
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پی کے کے کے کارروائياں تیز ہوٸیں اور ترقی نے نہ صرف ترکی کے اندر پی کے کے کے بیسسز پر اٹیک کیا بلکہ شام اور عراق میں بھی متحد فوجی آپریشن کرکے پی کے کے کے جنگجٶں کو نشانہ بنایا جس میں عام شہریوں کی ہلاکتوں کے رپورٹ بھی سامنے آٸیں۔ 2021 سے ترقی نے مغربی ترکی، عراق اور شام میں مختلف فضائی اور زمینی آپریشنز کا ایک کیمپین لانچ کیا اور جہان ایک بار پھر پی کے کے کے فاٸیٹرز کو مارنے کا دعوعہ کیا گیا.
اسی طرح 2 اکتوبر 2023 میں کردستان ورکرز پارٹی کے فداٸی ونگ ”اَمر برگیڈ“ کے دو بہادر عورتوں نے صبع کے وقت ترکش انٹیرٸر منسٹری پہ فداٸی حملہ کیا. حملہ کے بعد پی کے کے کے ایک کلیمنگ رپورٹ سامنے آٸی جس میں اُس نے یہ ظاہر کرتے ہوٸے کہا کہ اُس کے دو فداٸی عورتون” زوجت زلان اور اردال وھیان“ نے اس کامیاب آپریشن میں حصہ لیا اور اس حملہ کو ترکی کے عام کرد آبادی پر بمباری کرنے کے جواب میں کیاگیا تھا اور ترکی نے اس حملے میں صرف اور صرف ایک پولیس آفیسر زخمی ہونے کی تصدیق کی تھے۔ ایک بار پھر ترکی نے فضاٸی آپریشن کا انعقاد کیا ہے اور پچھلے ہفتے میں ترقی نے 58 کردش عسکریت پسند مارنے کا دعوعہ کیا.
پی کے کے کا مستقبل اور متوقع عوامل کیا ہوسکتے ہیں؟
جس طرح اسرائيلی افواج نے کٸی دہاٸیوں سے فلسطينيوں کو جانوروں کی طرح مارا اور ہمیشہ فلسطينيوں کو مظلوم اور ڈفینسلس سمجھا مگر حماس کے ”Al Aqsa Flood Operation“ نے اسرائيل اور اُس کے اتحادیوں کو جھنجوڑ کے رکھ دیا جس میں اسرائيلی خفيہ ایجنسیز کو معلوم تک نہ ہوٸی. اس آپریشن کو حماس کے لیڈر نے الاقصٰی مسجد کے بے حرمتی کا بدلہ قرار دیا جہاں اسرائيلی افواج ہر وقت نمازیوں کو جانوروں کی طرف گھسیٹتے اور مسجد کا بے حرمتی کرتے تھے۔
گمان یہی ہوتا ہے کہ پی کے کے بھی ایک بڑی کاررواٸی کرنے کا سوچھ رہا ہے جس میں وہ ترکی کو یہ بتانے کی کوشش کریگا کہ وہ کردش جینوساٸڈ ترک کردے اور کردوں کے جتنے ڈمانذز ہیں اُنہیں قبول کرے۔ مگر سوال یہ ہے کیا ترکی کردوں کے ڈمانڈز کو قبول کرلے گا؟
جی بلکل نہیں کیونکہ اگر جیو گرافیکلی دیکھا جاٸے تو ترکی نے کردستان زمین کے 40 فیصد حصے میں اپنا ناجائز قبضہ جما چکا ہے اور کردوں کا پہلا مطالبہ یہ ہے کہ ترکی کرد علاقون سے اپنا اثروسورخ ختم کرے اور کردستان کے جیوگرافی کو تسلیم کرے. مجھے نہیں لگتا کہ ترکی اُن کے اس مطالبہ پہ آسانی سے رضا مند ہوجاٸے گا۔ یہی وجہ ہے کہ کردوں کو اپنے مطالبات منوانے کےلٸے ایک ”Escalation of high profile attacks“ کا ایک پالیسی اپنانا ہوگا اور پھر حالات ترکی کےلٸے خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔