پسنی کے ساحل، سندھ کا اجرک قبول کیجئے ۔ محمد خان داؤد

128

پسنی کے ساحل، سندھ کا اجرک قبول کیجئے
تحریر: محمد خان داؤد
دی بلوچستان پوسٹ

مبارک قاضی محبت کے سفر کا آخری مسافر تھا۔ جس کے پیر پتھوں (چھلنی)اور دل درد سے پُر تھا۔ایسا درد جو نہ تو کسی سے چھپایا جائے اور نہ ہی کسی کو دکھایا جائے۔درد آپ ہی بولے کہ”میں درد ہوں!“اس کے پاس درد کو جھیلنے والا دل تھا۔اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ دل کب کا رُک جاتا۔پر وہ دل نہیں رُکا۔وہ دل کیوں نہیں رُکا؟اگر اس سوال کا جواب ہم خود قاضی سے پوچھتے تو ہو سکتا ہے کہ وہ اس سوال کا کوئی قلندرنہ جواب دیتے۔پر ہم سمجھتے ہیں کہ اس دل کو اور بھی بہت سفر کرنا تھا۔بہت دکھ جھیلنے تھے۔اور بہت سے اشعار لکھنے تھے۔پر اب وہ دل رات کے آخری پہروں میں رُک چکا ہے اور وہ دل درد بن کر بلوچستان کے ساحلی شہر پسنی میں درد بن کر ٹھہر چکا ہے۔
اب قاضی شہر یاراں میں نہیں آئے گا
چاہیے اپنے گھروں کے در واہ رکھو چاہیے بند کر دو
قلندر تو گزر چکا
وہ ایسے جا چکا ہے جس کے لیے ایاز نے لکھا تھا کہ
”لڑیو سج لکن م!“
شام ڈھل گئی!
اس کے اب پیروں کے نشان کراچی پہ نقش نہیں ہونگے
بلوچ دھرتی نے اسے اپنے سینے میں سمیٹ لیا ہے
تمام الفاظوں سمیت،تمام دردوں سمیت
نہ اب الفاظ رقص کریں گے اور نہ ہی ان الفاظوں سے گیت بنیں گے
شاعر تو جا چکا
ہاں اگر دل،اور درد والے دیس پر محبت کی بارش برسی تو قاضی کا دل گیت بن کر دھرتی پر گونجے گا
جب دھرتی پر عشق کی ہوائیں گھلیں گی تو مبارک کا دل خوشبو بن کر دھرتی پر بکھر جائے گا
جب دھرتی پر رنگوں کی بارش ہوگی تو ان رنگوں میں جو سب سے نمایاں رنگ ہوگا وہ اس مبارک کا ہوگا جس نے دل سے دھرتی کو گایا اور اب دھرتی اسے اپنے سینے میں لیے ہوئے ہے۔
اب اس کے پیر دھرتی سے ایسے جُڑے ہوئے ہیں جیسے معصوم بچے ماؤں کی چھاتیوں سے جُڑے ہو تے ہیں۔مبارک اب دھرتی کی چھاتیوں کو بوسہ دیے سو رہا ہے،اور بہت دور،ساحل سے بہت دور قاضی کے گیت درد بن کر مبارک پر مینہ برسا رہے ہیں
اگر لکھے الفاظ،گیت کسی کا پروسہ لیتے تو اس وقت سب سے زیا دہ پروسہ قاضی کے گیت لے رہے ہو تے اپنے محبوب شاعر کے لیے۔
پر سا وقت تو دھرتی کے محبوب شاعر کے لیے پورا دیس ہی پروسہ بنا ہوا ہے
اک ماتم ہے
اک درد ہے
اک سوز ہے
اک سوزان عشق ہے
اک دیس،اک درد
دیس کرے تو کیا کرے؟
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت پورا دیس مبارک کے لیے درد بنا ہوا ہے۔اور پورا دیس اپنے کاندھوں پر قاضی کی صلیب لیے چل رہا ہے اور بہت بڑا ہجوم ہے جو اس صلیب کے پیچھے پیچھے چل رہا ہے۔شال کی گلیوں سے لیکر پسنی کے نیلگوں ساحل تک۔تمپ کے میدانوں سے لیکر۔گوادر کے ساحل تک۔خضدار کے بلند و بالا پہاڑوں سے لیکردھرتی کے با حیا میدانوں تک ایک ایسی صلیب ہے جو یسوع کے بچھڑجانے پر دھرتی اپنے کاندھوں پر لیے چل رہی ہے۔
جو شاعر دھرتی سے جُڑ جاتے ہیں دھرتی انہیں دفن ہونے گم نام ہونے نہیں دیتی۔پر وہ تو منصور جیسے شاعر ہو تے ہیں دھرتی تو انہیں سینے سے لگاتی ہے۔اپنے محبت بھرے پستانوں سے میٹھا شیریں دودھ پلاتی ہے۔دھرتی کبھی ان کی راکھ کو پیروں تلے آنے نہیں دیتی۔دھرتی تو ان کا مان اتنا اونچا کرتی ہے کہ تمام دئیے شرما جاتے ہیں
تمام نور جھکے(پھیکے)پڑ جا تے ہیں
تمام سورج اوندھے منھ گر پڑتے ہیں
اس وقت مبارک قاضی اونچی لوُ بن کر دیس پر جل رہا ہے اور تما دئیے بجھ گئے ہیں
ایسا مان تمام کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے یہ اک قربانی ہے جس جس نے آگے بڑھ کر دھرتی ماں کو عزت بخشی ہے،دھرتی کی مانگ میں لہو کا سندور بھرا ہے دھرتی نے دو قدم آگے بڑھ کراس کے گال چومیں ہیں۔جس جس نے مٹی کو مان دیا مٹی نے اسے منصور بنا دیا۔پھر منصوروں کی مٹی پیروں تلے نہیں آتی۔پر دھرتی منصوری مٹی کو دیس کے کونے کونے پر چھڑکا دتی ہے۔جس سے دیس میں محبت کی ہوائیں گھلتی ہیں۔حسینائیں حاملہ ہو تی ہیں۔ماؤں کے پستان دودھ سے بھر جانتے ہیں۔دریا ؤں کا پانی اور میٹھا ہو جاتا ہے۔تتلیوں کے پروں پر رنگ نکھر آتے ہیں،بارشیں برستی ہیں اور تمام دیس خوشبو سے بھر جاتا ہے
یہ سب کب ہوتا ہے؟جب دھرتی کی مٹی کو پہچانا جائے مبارک قاضی نے دیس کی مٹی کو پہچانا اور اس کے لبوں پر ایسی صدا رہتی تھی کہ
مٹی میری ماں
تمبورے کی تون تون مٹی
ہنسی،خوشبو اور رنگ مٹی
آنکھیں مٹی،سرمہ مٹی
سرُ،ساز،آلاپ مٹی
ماں کی محبت،محبوبہ کا بوسہ مٹی
ہونٹوں کی سُرخی مٹی
بالوں کی مانگ اور سندور مٹی
مٹی میری ماں
مٹی میری ماں!
جو مٹی کا ہوکر رہ جاتا ہے۔پورا دیس اس کا دامن بن جاتا ہے
اس وقت پورا دیس دامن کو پرچم بنا کر قاضی کی جدائی کی صلیب لیے راہ میں ہے
قاضی بس بلوچ دھرتی کا بیٹا نہیں تھا۔قاضی سندھ کا بھی بیٹا تھا قاضی کے پیر بس شال کی گلیوں پر نہیں پڑے قاضی کے مسافر پیر کراچی کے نینوں پر بھی پڑے اور اس وقت کراچی بھی اتنا ہی اداس ہے جتنا پسنی!
اے اداس ساحل پسنی کے نیلگوں پانی
سندھ کا اجرک قبول کیجئے اور اس قبر پر ڈال دیجیے
جس قبر میں اک شاعر ماں کے گود میں سو رہا ہے
اور دھرتی ماں رو رہی ہے
رو رہی ہے
نا تمام
”تنھنجی مٹی منجھ ملان جی
مان امرتا پایان!
مٹی ماتھے لائیان مان
مٹی ماتھے لائیان مان


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔