پچھلے تین دنوں سے ڈیرہ بگٹی میں بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن جاری ہے، ابتک متعدد افراد لاپتہ ہوئے ہیں جبکہ آج کورکمانڈر کوئٹہ آصف غفور اور آئی جی ایف سی بھی ڈیرہ بگٹی پہنچ گئے ہیں۔
قوم پرست خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ مذکورہ افسران کی ڈیرہ بگٹی میں جانا آپریشن کو مزید وسعت دینے کو ظاہر کرتا ہے۔
ڈیرہ بگٹی میں آپریشن کیوں ہورہا ہے؟
گذشتہ دنوں 18 ستمبر کو نامعلوم مسلح افراد نے دوران سفر جانی بیڑ کے مقام پر راستے میں اٹھارہ افراد میں سے شناخت کے بعد چھ افراد کو اس وقت اغواء کرلیا جب وہ ڈیرہ بگٹی سے سبی جارہے تھے۔
اغواء ہونے والوں کے بارے میں ذرائع ابلاغ سے ملنے والی معلومات کے مطابق مذکورہ افراد فٹبالر ہیں۔
حکومتی موقف:
حکومت کا موقف ہے اغواء شدگان فٹبالروں کی بازیابی کے لئے آپریشن کیا جارہا ہے۔
تاہم قوم پرستوں کا دعویٰ ہے کہ آپریشن میں فورسز کی جانب سے عام آبادیوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے، جبکہ دوران آپریشن فورسز نے متعدد افراد کو بھی جبری گمشدگی کی شکار بناکر نامعلوم مقام منتقل کردیا ہے۔
ان کو کس نے اغواء کیا ہے؟
ڈیرہ بگٹی میں پاکستانی فورسز اور ان کے تنصیبات پر حملے کرنے والی “بلوچ لبریشن ٹائیگر” نامی تنظیم نے میڈیا کو بھیجے گئے ایک بیان میں دعوی کیا ہے کہ مذکورہ اغواء ہونے والے چھ افراد آئی ایس آئی کے ایجنٹ ہیں اور وہ ان کے حراست میں ہیں۔
ترجمان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ میڈیا میں جن کو فٹبالر بنا کر پیش کیا جارہا ہے وہ آئی ایس آئی کے سرگرم ایجنٹ تھے جو کہ ضلع ڈیرہ بگٹی میں نہتے لوگوں کو لاپتہ کروانے اور شہید کروانے میں براہ راست ملوث رہے ہیں۔
اس وقت ڈیرہ بگٹی میں کیا ہورہا ہے؟
پچھلے تین دنوں سے ڈیرہ بگٹی کی فضا میں گن شب ہیلی کاپٹروں کی پروازیں وقتا بہ وقتا جاری ہے جبکہ دوسری جانب فورسز کے قافلوں کی بھی آمد و رفت جاری ہے اور کئی مقامات پر فورسز کی جانب سے سخت چیکنگ جاری ہے۔
علاقائی ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈیرہ بگٹی و سوئی اس وقت مکمل فوجی محاصرے میں ہے، جبکہ فورسز کی جانب سے ابتک متعدد افراد کو حراست میں لیا گیا ہے جن میں ابتک گیارہ افراد کی شناخت ہوئی ہے۔
لاپتہ ہونے والوں میں مقامی شاعر عزیز بگٹی، سلیمان بگٹی، حاجی میاں خان، نوجوان علی بخش، پٹھان، ہاشم بگٹی، بابل بگٹی، یعقوب بگٹی، کریم بگٹی، مصطفٰی بگٹی اور بجار بگٹی شامل ہیں۔
ذرائع دعویٰ کررہے ہیں کہ لاپتہ ہونے والوں کی تعداد اس سے زیادہ ہے تاہم علاقے میں جاری آپریشن اور فوجی محاصرے کی وجہ سے دیگر افراد کی شناخت کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
دروان آپریشن فورسز اور مسلح افراد کے مابین جھڑپوں کی بھی اطلاعات موصول ہوئے ہیں۔
دوسری جانب بلوچ لبریشن ٹائیگر کے ترجمان نے گیس پائپ لائن اور فورسز کے قافلے پر حملوں کی ذمہ داری بھی قبول کی ہے، جبکہ حکام کا فورسز پر ہونے والے حملوں کی تصدیق یا تردید نہیں کی ہے، تاہم گیس پائپ لائنوں پر ہونے والے حملوں کی تصدیق ہوچکی ہے۔