کوئٹہ: جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج جاری

92

کوئٹہ پریس کلب کے سامنے جبری گمشدگیوں کے خلاف وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا احتجاجی کیمپ آج 5164 ویں روز جاری رہا۔

اس موقع پر سیاسی و سماجی کارکن ضامن چنگیزی نے اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

تنظیم کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچ دھرتی پر پاکستان اپنے لڑکھڑاتی قبضہ گیریت کا شکست کھاتا جارہا ہے، بلوچ سیاسی افق پر روز نت نئے پیش رفت کو دیکھ کر قابض ریاست کے اوسان خطا ہو رہے ہیں اور بلوچ ریاست پر جاری جمہوری سیاسی جدوجہد کی بے دریغ عوامی حمایت نو آبادیاتی ڈھانچے کی حالتِ زار اور بلوچستان بھر میں سیاسی شعوری سرگرمیوں میں اضافے جہاں ریاستی عملداری کو درپیش چیلنجز کے سبب انہیں معاشی زبوں حالی اور شدید توانائی کے بحران کا سامنا ہے، وہیں دوسری طرف عالمی سطح پر بلوچ قومی تحریک کی مقبولیت پاکستان کے حکمرانوں کو بے چین کرتا دکھائی دیتا ہے۔

انہوں نے کہاکہ اسی لئے بلوچ سرزمین پر براہ راست آگ و خون کی ہولی کھیلنے کے سلسلے کو برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ پاکستان نے عالمی سطح پر بلوچ قومی تحریک کی مقبولیت کو کم کرنے لیے ہر قسم کی کوششوں کو جاری رکھنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

ماما قدیر نے مزید کہا کہ ریاست پاکستان کے خفیہ ادارے CTD اور دیگر ادارے بلوچستان میں بے لگام گھوم رہے ہیں، وہ جب اور جہاں چاہیں بلوچ طلبا، سیاسی کارکنوں، مزدوروں سے لیکر ٹیچرز اور وکلاء اور کسی بھی شعبے یا مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے بلوچوں کو اغواء اور قتل کرکے چلے جاتے ہیں، اور بعد میں ان کی مسخ شدہ لاشیں کسی جگہ پڑی مل جاتی ہیں، اب تک 65000 ہزار سے زائد بلوچوں کو لاپتہ کیا جاچکا ہے جن میں سے ہزاروں کی مسخ شدہ لاشیں بلوچستان کے مختلف علاقوں سے مل چکی ہیں جنہیں وحشیانہ تشدد کے بعد قتل کیا گیا تھا، یہ تمام لاشیں ان مسنگ پرسنز کی تھیں جنہیں مختلف اوقات میں CTD اور دیگر سیکیورٹی فورسز نے بلوچستان کے مختلف علاقوں سے ماورائے قانون اغواء کیا تھا. اور ستم بالائے ستم یہ کہ ان لاشوں کو لواحقین کے حوالے کرنے کے بجائے ریاستی فورسز نے انہیں اپنے تحویل میں لیے ہوئے ہیں، جب کہ وہ لاشیں DNA ٹیسٹ کے لئے بلوچ لواحقین کے حوالے کرنے چاہئیں۔