بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے متاثرین کا عالمی دن
ٹی بی پی اداریہ
جبری گمشدگیوں کے متاثرین کا عالمی دن گزر گیا لیکن بلوچستان میں اُس دن بھی جبری گمشدگیوں کا سلسلہ رک نہ سکا۔ اٹھائیس اگست کو بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ سے سبی کے رہائشی نور خاتون اور اُن کے بچوں کو یونائیٹڈ ہوٹل سے جبری گمشدہ کیا گیا اور تیس اگست کو ایک سال پہلے مستونگ سے جبری گمشدہ غلام فاروق زہری کی لاش کوئٹہ سے برآمد ہوئی۔
بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے متاثرین کا عالمی دن احتجاج میں گزر گیا۔ سائرہ پانچ سال سے جبری گمشدہ بھائیوں کی بازیابی کے لئے اُن کے بچوں کے ساتھ اقتدار کے مرکز اسلام آباد میں احتجاج کررہی ہے تاکہ مرکز کے ایوانوں میں اُن کی آواز سنی جائے۔
سمی دین، حمیدہ، فوزیہ اور سیمہ بلوچ سینکڑوں جبری گمشدہ افراد کے لواحقین کے ساتھ کراچی میں اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے فریاد کناں ہیں لیکن ریاستی ادارے اُن کی فریاد سننے کے بجائے اُن کی آواز طاقت کے ذریعے ختم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
کوئٹہ میں راشد بلوچ کی والدہ انصاف کے سارے دروازے کھٹکٹا چکی ہے لیکن انصاف کے علمبردار خاموش ہیں۔ سعیدہ بلوچ کے بھائیوں کی بازیابی کے بجائے انہیں دھمکیاں دی جارہی ہیں اور ماما قدیر جبری گمشدگیوں کے خاتمے کی آس میں پانچ ہزار دن سے زائد اپنا احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں۔
جنگ زدہ بلوچستان میں جبری گمشدہ افراد کی بازیابی کے لئے احتجاج ہوتا آر ہا ہے لیکن اب جبری گمشدہ افراد کے قتل ہونے کے بعد اُن کی لاش کے لئے بھی احتجاج کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ عالمی انسانی حقوق کے اداروں کی خاموشی اور پاکستان سے بلوچستان میں جبری گمشدگیوں پر جواب طلب کرنے سے اجتناب نے بلوچستان میں ہزاروں لوگوں کی جبری گمشدگیوں سے انسانی المیہ جنم لے چکا ہے۔