کیچ سے مزید تین افراد جبری گمشدگی کا نشانہ بنے ہیں-
اطلاعات کے مطابق آج دوپہر کو ایک بجے کے قریب ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت میں اسپتال کے باہر سے گاڑیوں میں موجود مسلح افراد نے دو بھائیوں زہیر اور پیر جان ولد لشکر خان کو اغوا کرکے اپنے ہمراہ لے گئے-
دونوں بھائیوں کی جبری گمشدگی کے حوالے سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق زہیر گذشتہ دنوں طبیعت ناسازی کی وجہ سے اسپتال میں زیر علاج تھے، آج جب انھیں اسپتال سے فارغ کیا گیا تو دونوں بھائیوں کو اسپتال کے سامنے سے اُٹھاکر لاپتہ کردیا گیا-
دریں اثنا آج شام تربت میں مسلح بندوق برداروں کی بڑی تعداد نے کیچ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر اور سنئیر قانون دان عبدالمجید شاہ ایڈووکیٹ کے چیمبر اور چیمبر سے منسلک دوکان پر دھاوا بول کر وہاں موجود افراد کو تشدد کا نشانہ بنایا-
مسلح افراد نے اس دؤران قانون دان کے چیمبر میں کام کرنے والے میٹرک کے طالب علم عادل ولد عصاء سکنہ نلی بالگتر کو اغواء کرکے اپنے ساتھ لے گئے جبکہ اس دؤران مسلح افراد نے چیمبر و دوکان میں موجود دیگر افراد کو زدوکوب کرکے ان کے موبائل فونز وغیرہ ساتھ لے گئے۔
واضح رہے کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے جبکہ رواں ماہ ان جبری گمشدگیوں میں مزید تیزی آئی ہے ۔رواں سال اگست میں بلوچستان سمیت کراچی سے تیس سے زائد جبری گمشدگیوں کے اطلاعات موصول ہوئی ہیں-
انسانی حقوق کے اداروں اور بلوچ سیاسی تنظیموں کی جانب سے جبری گمشدگیوں میں پاکستانی سیکورٹی اداروں اور ان اداروں کی جانب سے قائم کردہ ڈیتھ اسکواڈز کو ملوث قرار دیا جاتا رہا ہے جبکہ متعدد بار جبری گمشدگی کا شکار افراد جبری گمشدگی کے بعد بازیاب بھی ہوگئے ہیں-
بلوچستان کے سیاسی و قوم پرست تنظیمیں ہمیشہ سے عالمی اقوام و انسانی حقوق کے اداروں سے مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ وہ ان جبری گمشدگیوں کی روک تھام کے لئے اقوام متحدہ کا ایک فیکٹ فائنڈنگ مشین بلوچستان بھیج دے ان تنظیموں کا اندازہ ہے بلوچستان سے گذشتہ بیس سالوں میں جبری گمشدگیوں کے تعداد بیس ہزار سے زائد ہے-