بلوچستان میں ہونے والے خودکشی کے واقعات کے حوالے سے بلوچستان حکومت کے ساتھ انسانی حقوق کے اداروں سمیت قوم پرست تنظیموں و پارٹیوں میں بھی ایک خاموشی دیکھنے کو ملتی ہے۔ خودکشیوں کے حوالے سے عوام میں ایک منفی رجحان پایا جاتا ہے، جہاں اس پر کھل کر بات کرنے کی بجائے، اسے بدنامی سے نتھی کرکے ایسے واقعات کو حتیٰ الوسع چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ کے جمع کردہ اعداد و شمار کے مطابق رواں سال کے پہلے چھ مہینوں میں خودکشی کے 29 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، جن میں 11 خواتین اور 18 مرد شامل ہیں۔
ٹی بی پی ویژول اسٹوڈیو کے انفوگرافکس میں بلوچستان میں رپورٹ شدہ خودکشی کے معاملات پر رواں سال کے پہلے چھ مہینوں میں رجحانات اور عوامل کا تجزیہ کیا گیا ۔
ڈیٹا کے مطابق خودکشی کے واقعات میں ہلاک افراد میں 11 خواتین اور 18 مرد شامل ہیں جبکہ ان میں 13 سے 28 سال تک کے عمر کے خواتین اور مرد شامل ہیں ۔
دی بلوچستان پوسٹ کے جمع کردہ معلومات کے مطابق ہر ہفتے خودکشی کا ایک کیس سامنے آیا جو آبادی کی 100000 سے 0.135 ریکارڈ کیا گیا ہے۔
خودکشی کے واقعات میں 2 تیزاب اور زہر خورانی، 12 پھندے، 10 نے نامعلوم طریقوں سے جبکہ 4 افراد نے خود کو گولی مار کر زندگی کا خاتمہ کیا جن کے اسباب میں غربت، گھریلو جھگڑے، گھریلو تشدد اور مبینہ طور پر ریاستی فورسز اور بااثر افراد کی بلیک میلنگ شامل ہیں ۔
چھ مہینے کے واقعات میں سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں گڈانی، حب چوکی، کوہلو، نوشکی، کوئٹہ، تربت، چاغی، دالبندین، کچھی، کیچ، خضدار، پنجگور، آواران، ڈیرہ بگٹی، دکی اور گوادر شامل ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ کو خودکشی کے ان واقعات پہ تحقیق کے دوران کئی مشکلات کا سامنا رہا ہے، کئی مقامات پر مصدقہ ذرائع سے تصدیق ہونے کے باوجود کہ کسی گھر میں خودکشی کا واقعہ پیش آیا ہے، رابطہ کرنے پر لوگ تردید کرکے ان اموات کو طبی یا حادثاتی قرار دیتے رہیں جبکہ دور دراز علاقوں اور مواصلاتی سہولیات کی عدم دستیابی کے باعث بھی کئی واقعات سامنے نہیں آتے ہیں۔
بعض کیسز میں خودکشی کے واقعات میں ریاستی فورسز اور مبینہ طور پر حکومتی سرپرستی میں چلنے والے مسلح جھتوں کی بلیک میلنگ شامل ہیں، جبکہ ان واقعات میں بے روزگاری اور دیگر نفسیاتی مسائل بھی سرفہرست ہیں۔
خیال رہے بلوچستان میں رپورٹ شدہ خودکشی کے معاملات ممکن ہے کہ 100 فیصد درست نہ ہوں ، کیونکہ دور دراز علاقوں تک پہنچنے کی دشواری اور مواصلات کی عدم موجودگی کے باعث ممکن ہے کہ واقعات کی رپورٹنگ میں کمی ہو ۔