جنگ کی جدلیات
آخری حصہ
تحریر: مہر جان
دی بلوچستان پوسٹ
جنگ کی جدلیات میں جنگ کے پیچھے “دماغ” کارگر ہوتا ہے ، جنگ ایک ایسے دماغ /قیادت کا متقاضی ہوتا ہے جو “سو قدم” آگے سوچنے کی بجاۓ “سو سال” آگے سوچنے کی بصیرت رکھتا ہو یہ اسی صورت ممکن ہے کہ حالات و واقعات کو جدلیاتی انداز (بنیادی تضاد) سے دیکھا جاۓ ، بنیادی تضاد اپنی زمین سے جڑا ہوا تضاد ہوتا ہے ، جو بھی باھر سے کسی تضاد کو اپنی زمین پہ ہو بہو لاگو کرتا ہے وہ دراصل اپنی زمین کو نہیں جانتا سپاہی کی بندوق سے لے کر دانشور کے قلم تک بنیادی تضاد پہ فوکسڈ ہوتا ہے ، غیر ضروری مباحث سے لے کر غیر ضروری تضادات سے پہلو تہی کرتے رہنا ہی بنیادی تضاد کو ابھارنے کا سبب بنتا ہے، جو آخرکار جنگ کی صورت اختیار کرلیتی ہے ، شروع شروع میں چھوٹی چھوٹی لڑاہیاں ہوتی رہتی ہیں ہٹ اینڈ رنُ صورت حال چلتی رہتی ہے جو گوریلا حکمت عملی کے زمرے میں آتی ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ لڑائ فیصلہ کن جنگ میں داخل ہوجاتی ہے ، دماغ کا سب سے اہم کردار یہی ہوتا ہے کہ لڑائ کو آہستہ آہستہ فیصلہ کن جنگ تک لے جایا جاۓ ، دراصل بقول نیطشے چھوٹی چھوٹی لڑائیاں ایک بڑی جنگ کی تیاری ہوتی ہے ، جب بڑی جنگ شروع ہوتی ہے پھر لڑاہیاں نہیں رہتیں بقول سن تزو “مدبر جنگجو لڑائ کو نظرانداز کرتا ہے وہ فیصلہ کن حملے کرتا ہے” ان فیصلہ کن حملوں کو جنگ میں pillers of wisdom کہا جاتا ہے ۔ان فیصلہ کن حملوں میں لاجسٹک سپورٹ سے لے کر دشمن کے انفرا اسٹرکچر ، فزیکل کیچویلیٹی , میگا پروجیکٹس ( سیاسی، معاشی، دفاعی تسلط کا خاتمہ ) مطمع نظر ہوتا ہے ، ان کو بالاۓ طاق رکھ جو بھی حملے ہو تے ہیں وہ لڑائیوں کے زمرے میں آتی ہے جو بڑی جنگ کی تیاری کے لیے کارآمد ہوتی ہے۔
جنگ کی مجموعی صورتحال میں دشمن پہ نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ گوریلا حکمت عملی کے دوران گوریلا کی زندگی کی قیمت سے قیادت کا واقف ہونا بھی لازم ہے بقول بابا مری “گوریلا سپاہی عظیم انسان ہے اس کی جان کی حفاظت ضروری ہے، وہ اک سمت سے سے دشمن پہ اس وقت حملہ کرے جب تین سمت بچ نکلنے کے لیے کُھلے ہوں” گوریلا کی زندگی کی قیمت بقول شخصے امریکن آبدوزوں سے بڑھ کر ہے ، انہیں کہاں، کب، اور کیسے حملہ کرنا ہے قیادت کی دوراندیشی پہ منحصر ہوتا ہے اس لیے جنگی قیادت “جلد بازی کے مرض” سے بقول ماؤ کوسوں دور ہوتی ہے ، سدو مری کا قومی جنگ کے حوالے سے یہ کہنا بلکل بجا ہے کہ “نَم ئس اف کہ بارِّک” براہوئی زبان کی شاعری میں یہ مصرعہ ضرب المثل کی صورت اختیار کرچکا ہے کہ “اینو ننے دے دیگر اے پگہ نوا وار اس برے” بابامری اس حوالے سے کیچوے کی چال چلتا تھا وہ کبھی بھی جلد بازی کی مرض میں مبتلا نہیں رہا ۔ ان کے قریبی رفقاء میں سے ایک رفیق انہیں مذاقا “جان بڈ” کہتا تھا، لیکن وہ اپنی سرشاری میں مست ہوکر اپنی منزل کی جانب آہستہ آہستہ رواں دواں تھے ۔
جنگ کی قیادت کے لیے جرات کا پیکر ہونا لازمی بلکہ ازحد ضروری ہے لیکن یہاں مسئلہ یہ ہے کہ جرات کو نہایت محدود کیا گیا ہے ، جرات سے عمومی طور پر “بندوق اور مورچہ بندی” مراد لیا جاتا ہے لیکن اس کے برعکس جرات “پرسکون ذہنی حالت” کا نام ہے جرات مند انسان کا دماغ / مزاج گلیشئر پہ پڑی ہوئی برف کی طرح ٹھنڈا ہوتا ہے، جس برف میں طوفان پنہاں ہوتا ہے ، آپ “پرسکون ذہنی حالت اور اس طمانیت و سرشاری” کو جنگ کا دوسرا نام کہہ سکتے ہیں ، ایک ایسی طمانیت جو “فتح کو ہضم اور شکست کو برداشت” کرسکے ، بقول سقراط “ بعض لوگ جرات کا مظاہرہ خوشی کو ہضم کرتے وقت کرتے ہیں اور بعض درد کو برداشت کرتے وقت ۔اسی طرح کچھ خواہشات اور خوف کی صورت میں جری ثابت ہوتے ہیں اور بعض ایسی صورتوں میں سخت بزدل ثابت ہوتے ہیں” ماؤ کے الفاظ میں بزدل شخص وہ ہوتا ہے “ جب کسی لڑائی میں فتح ہوتی ہے تو وہ مغرور ہوجاتے ہیں اور جب کسی لڑائی میں شکست ہوجاۓ تو حوصلہ ہار کر بیٹھ جاتے ہیں “لیکن جرات مند قیادت میں قوت برداشت کی صلاحیت ہوتی ہے دنیا کی تاریخ میں جو بھی جرنیل یا لیڈرشپ کے نیچر میں اس طرح کی طمانیت رہی ہے وہی اپنی قوم اور انسانیت کو گرداب سے نکلنے میں کامیاب ہوا ہے ۔ وگرنہ چھوٹی چھوٹی خوشیوں کا اسیر ہونا یا پھر چھوٹی چھوٹی رنجشوں کو برداشت نہ کرنا کسی بھی قیادت کی سب بڑی کمزوری و بزدلی کی نشانی ہوتی ہے چاہے وہ میدان جنگ میں مورچہ بند ہی کیوں نہ ہو۔
جنگ کی جدلیات میں جس طرح مجادلہ سے وحدت پیدا ہوتی ہے اسی طرح کسی بھی جنگ زدہ زمین پہ “جنگ سیاست ، ادب “ میں وحدت پیدا ہوتی ہے ہو سکتا ہے ایک وقت میں ہر ایک کی الگ الگ حیثیت ہو لیکن جنگ میں ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب پروفیسر صباء دشتیاری کو بولنے سے یہ کہہ کر روک دیا جاتا ہے کہ یہ ادبی محفل ہے یہاں آپ نواب بگٹی کی شہادت کو لے کر بیٹھ گئے یہ سیاسی مجلس تھوڑی ہے ؟ تو وہ گرج دار آواز میں یہ بتا دیتا ہے کہ میری زمین پہ جنگ جاری ہے “جہاں جنگ جاری ہو وہاں ادب و سیاست ایک ہوجاتی ہے” ۔ اردو کے شاعر منیر نیازی یا ہیئت پسندوں کا یہ اعتراض اپنی جگہ کہ جن کی شعریت کمزور ہو تو وہ نظریہ کے مورچے پناہ لیتے ہیں لیکن جن کے وجود کا اظہار ہی اپنی زمین سے جڑت پہ ہو ان کی شعریت کو کسی پناہ گاہ یا مورچے میں تولنے کی ضرورت نہیں ہوتی ، ویسے بھی بات ادب کے جوہر و اظہار پہ ہونی چاہیے کہ کتنی شعریت کا حامل ہے نہ کہ ادبیت کو مورچے کے ساتھ جوڑ کر ادب کا پیمانہ مقرر کیا جاۓ ، اسی طرح یہ کہنا کہ سیاست الگ ہے ، جنگ الگ ہے ، یا یہ کہنا کہ جنگ کی وجہ سے خلاء سیاست کے میدان میں پیدا ہوا ہے ، یہ دشمن کی زبان ہوتی ہے جس زبان کو بابا مری جیسا دور اندیش مدبر بخوبی سمجھتا تھا ، کیوں کہ جنگ زدہ علاقوں میں ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ جنگ ہی سیاست ہوتی ہے ، سیاست ہی جنگ ہوتی ہے ، ایک سیاسی مدبر سیاسی ، نظریاتی میدان میں جہد کار کی طرح لڑتا ہے وہ اپنی قوم کا مقدمہ اپنے کارکنوں کی ذہنی پختگی ایک جہدکار کی طرح کرتا ہے اور ایک جہدکار کے میدان سیاسی مدبر کی طرح گائیڈ لائن دیتا ہے ، یہ وحدت جو ایک مدت کے بعد پیدا ہوتی ہے جنگ کی جدلیات کی عطاء کردہ ہے گرامشی جب “پولٹیکو ملیٹینٹ” کہتا ہے تو اس سے اسکی مراد یہی ہوتا ہے کہ ایسا سیاسی مدبر جو جنگ کے رموز کار سے واقف ہو ۔اور جب بابا مری یہ کہتا ہے کہ ہمارے سو آدمی کی دانست دشمن کی لاکھ آدمی سے زیادہ پختہ ، سمجھدار اور باشعور ہونی چاہیے تو اس کا مطلب یہی ہے جہدکار سیاسی کارزار سے واقف ہو ۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب بات جنگ تک آجاۓ ۔ اس لیے یہ کہنا بے جاء نہ ہوگا کہ جنگ امن ہے اور محکوم کے لیے جنگ دلیل ہے۔ ھیگل اس بات پہ یقین رکھتا تھا
War , from philosophical point of view is a necessary phenomenon
“حیرانی تمن ویران انت
سیت گوں شکّلیں جنگان انت
(رحم علی مری)
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں