عبدالقدیر سے ماما قدیر تک کا سفر – کامریڈ قاضی

13

عبدالقدیر سے ماما قدیر تک کا سفر

تحریر: کامریڈ قاضی

دی بلوچستان پوسٹ

آج ہم جس ماما قدیر کو جانتے ہیں وہ ایک فرد نہیں تھا وہ ایک مضبوط نظریہ، خواب ایک چمکتا ستارہ تھا کہ جس نے بلوچستان کے لاپتہ افراد کی کیس کو پورے دنیا کے سامنے لایا، وہ ایک پہاڑ تھا جو ظالم اور ظلم کے سامنے ڈٹا تھا۔ ریاست نے تشدد سے قتل تک کی دھمکی دی مگر وہ پیچھے ہٹنے بجائے مزید آگے جا رہا تھا۔ اس کی یہی خواہش اور خواب تھا کہ جس طرح میرے بیٹے کو ظالم ریاست نے کئی وقت تک لاپتہ کیا اور بعد میں اس کی لاش کو پھینک دی گئی کوئی دوسرا باپ اس طرح نہ ہو جس طرح میں ہوا ہوں۔ یہی سوچ تھی جس نے ماما کو اپنی پوری زندگی لاپتہ افراد کی کیمپ میں گزارنے پر مجبور کیا تھا۔ اس نے اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد یا اپنے بیٹے کے لاپتہ ہونے کے بعد ذاتی خواہش سے نکل کر اجتماعی بن گیا، وہ ہر ماں کی درد کی آواز تھی جس کا بیٹا لاپتہ تھا، وہ ان کی بازیابی کی امید مگر آج یہ چراغ بجھ گیا۔ مگر ہرگز یہ نہیں کہ اس کی سوچ اور نظریہ ہم سے جدا ہوگی۔ بلکہ اس کی یہ سوچ ہمیشہ ہماری رہنمائی کرے گی۔

ماما عبدالقدیر کا بنیادی تعلق بلوچستان کے ڈویژن قلات کے علاقے سوراب سے تھا وہ 1940 میں اپنے آبائی علاقے میں پیدا ہوئے۔ اس نے اپنی بنیادی تعلیم سوراب سے ہی حاصل کی بعد میں کوئٹہ میں انٹر کیا اور بعد میں 1974 میں انہوں نے کیشیئر کے طور پر یو بی ایل میں ملازمت اختیار کی اور 2009 میں گریڈ تھری کے افسر کے طور پر ریٹائر ہوئے۔ 2009 میں اس کے بیٹے جلیل ریکی کو خفیہ ادارہ کے اہلکاروں نے لاپتہ کیا تھا اس کے بعد وہ لاپتہ افراد کی کیمپ میں بیٹھے رہے اور تین سال بعد 2011 میں اس کی تشدد زدہ لاش ضلع کیچ سے ملی۔ خلیل کی لاش کو دیکھ کر وہ خاموش یا ٹوٹے کے بجائے مزید مضبوط ہو گئے۔

جب جلیل کی لاش لائے گئے تو انہوں نے اپنے پوتے یعنی جلیل کے بیٹے کو اس کے والد کی لاش کے پاس لے گئے اور کہا کہ یہ آپ کا والد جلیل ہے جس کو پاکستان کی فوج نے بے گناہ شہید کیا ہے تو وہاں موجود لوگوں نے کہا کہ ایسا نہیں کرو یہ بچہ ہے تو انہوں نے کہا کہ یہ کل مجھے اپنے والد کے بارے میں پوچھے گا مجھ سے جھوٹ بولا نہیں جا سکتا اس لیے میں اسے ابھی اس کے آنکھوں کے سامنے سچ دکھا رہا ہوں تاکہ یہ دیکھ سکے اور جان سکے کہ اس کے والد کو کس نے قتل کیا ہے۔

اپنے بیٹے کی لاش ملنے کے بعد وہ خاموش نہیں ہوئے 2013 میں اس نے دیگر بلوچ لاپتہ افراد کے ساتھ پیدل لانگ مارچ کیا جو دنیا کا سب سے طویل لانگ مارچ ہے۔ وہ پہلے کوئٹہ سے کراچی آئے وہ بعد میں کراچی سے اسلام آباد گئے۔ یہ لانگ مارچ بالکل پرامن تھا مگر اس کے باوجود بھی ان کے راستے میں مشکلات کھڑی کی گئیں ان کو جان سے مارنے کی دھمکی دی گئی ان کو ہراساں کیا گیا اور بہت کچھ مگر وہ ان مشکلات کے سامنے مضبوط چٹان تھے۔ یہ لانگ مارچ کو تقریباً چار مہینے لگے۔ ماما کا ارادہ تھا کہ بلوچستان سے جینوا تک لانگ مارچ کریں گے جو اب تک نہیں ہوا کیونکہ سامراجی حکومت نے ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کیا تھا۔ اس سے پہلے وہ جینوا میں 2018 میں گئے تھے جہاں انہوں نے اقوام متحدہ میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے آواز اٹھانے کے لیے وہاں کے اداروں میں شرکت کی تھی۔

قابض ریاست نے ماما کی جدوجہد کو روکنے کے لیے ہر طرح کے ہربے استعمال کیے مگر ہر بار ناکام ہوئی۔ تین سے چار بار اس لاپتہ افراد کی کیمپ کو جلایا گیا اور انہیں مارنے کی دھمکی دی گئی ماما اپنے ایک انٹرویو میں کہتے ہیں کہ ایک بار اسے دو موٹر سائیکل سواروں نے ٹکر مار دی تھی جس سے انہیں چوٹ لگی تھی۔ وہ پیران سالی میں اور بیمار حالت کے باوجود وی بی ایم پی کے کیمپ میں بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ بات ہی ثابت کرتی ہے کہ غلامی کی زندگی میں جدوجہد عمر پر نہیں بلکہ یہ انسان کے نظریہ، حوصلے، صبر اور آسانی پر منحصر ہے۔

ماما کئی مہینوں سے بیمار تھے اور 20 دسمبر کے دن وہ ہم سے جدا ہو گئے۔ ان کی اس دنیا سے گزر جانا ایک ایسی جگہ کو خالی کرنے کے مترادف ہے جو سالوں سال بھر نہیں جاتی بقول قومی رہنما ڈاکٹر اللہ نذر نے ان کی وفات کو محض ایک فرد کی رحلت نہیں بلکہ انسانی وقار، سماجی انصاف اور سیاسی شعور کے ایک ایسے باب کا اختتام ہے جس نے طویل عرصے تک ریاستی جبر کے شکار اقوام اور متاثرہ خاندانوں کو زبان، حوصلہ اور سمت فراہم کیا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔