جنرل اسلم بلوچ: بلوچ تحریک کی تنظیم نو اور عالمی تناظر
تحریر: فتح جان
دی بلوچستان پوسٹ
عظیم تو وہ ہوتے ہیں جو راستے بناتے ہیں، باقی تو ضمیر کی آواز پہ لبیک کرکے اپنے وجود کو ثابت کرتے ہیں۔ میں نے کتابوں اور تاریخ کے صفحات میں عظیم کرداروں کے بارے میں جو پڑھا ہے، اس سے بڑھ کر ایک ایسے عظیم کردار کو دیکھا ہے جس نے وہ کیا جو شاید کوئی اور نہ کر سکا۔ وہ اس لیے اپنے الفاظ اور خیالات کو عملی شکل دینے میں کامیاب ہوا کیونکہ اسے اپنی قوم پر بھروسہ تھا۔
اپنے لختِ جگر کی تربیت سے لے کر ہزاروں بلوچوں کے لیے ایک عظیم درسگاہ کی حیثیت رکھنے والا جنرل (استاد) اسلم بلوچ کے عہد میں جینے والا بلوچ اس لیے خوش قسمت ہے۔ انہوں نے نئے سرے سے نئی تعمیر کی اور اس سے بڑھ کر بلوچ تحریک کو منظم اور جدید گوریلہ تکنیک کے مطابق ڈھالا۔
مایوسی کے عالم میں وہ ایک امید اور روشن مستقبل کی نوید بن کر قوم کی رہنمائی میں کامیاب رہا۔ ہر طرف ایک مایوسی کا ماحول تھا، بلوچ سماج میں بے یقینی کی کیفیت طاری ہو چکی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا سب کچھ ختم ہو چکا ہے، دشمن کی جارحیت کے سامنے قومی طاقت سکڑنے کی طرف تیزی سے جا رہی تھی، قومی طاقت ایک دوسرے کے خلاف بندوق سے قلم تک استعمال ہو رہا تھا، قوم کے بکھرے ہوئے ٹکڑوں کو دشمن تیزی سے کچل رہا تھا، کمزور لوگ دشمن کے سامنے سجدہ ریز ہو رہے تھے۔
لیکن جنرل اسلم بلوچ کے دل و دماغ میں تحریک کا مستقبل تھا اور انہوں نے ہزاروں مخالفت، پروپیگنڈے اور اپنوں کی بے گانگی کا بوجھ اٹھاتے ہوئے خیالات اور تصورات کو عملی جامعہ پہنایا۔ آج بلوچ قوم میں شعور، بیداری اور مزاحمت کا جنون ہے، وہی جنرل اسلم بلوچ کی جدوجہد کا حاصل ہے۔ ایک عظیم استاد اور مہربان لیڈر کی شہادت یقیناً بڑا سانحہ اور نقصان ہے، لیکن میں جنرل اسلم بلوچ کی شہادت کو اس برعکس دیکھتا ہوں کیونکہ اس نے چند مختصر مدت میں کئی قابل اور پراعتماد سنگت پیدا کیے۔
آج جنرل اسلم بلوچ کے کاروان کو لیڈ کرنے والے دوستوں میں وہ شفقت اور صلاحیت موجود ہے جو قوم پر بھروسہ کرکے اس جدوجہد کو بلوچ قومی طاقت اور اعتماد کی بنیاد پر منزل مقصود کی طرف لے جا رہے ہیں۔ بلوچ نوجوان پر یہ اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس بھروسے کی حفاظت کرتے ہوئے شہداء کے مشن کی تکمیل کے لیے جنرل اسلم بلوچ کی تعلیمات پر عمل کریں اور اس کاروان کے ساتھ جڑے رہیں، تاکہ غلامی اور ذلت کے تاریک راتوں کو ایک سحر میں تبدیل کرنے کے لیے یہ سیاہ دور طویل نہ ہو۔
جنرل اسلم بلوچ کی ایک پیروکار کی حیثیت سے میں یہ کہتا ہوں کہ آج کی بلوچ قومی تحریک آزادی نہ صرف بلوچوں کی حاکمیت کی بحالی کی جدوجہد ہے بلکہ عالمی سیاسی منظرنامے میں بھی اس کی اہمیت بڑھتی جا رہی ہے۔ عالمی طاقتیں ہمیشہ ایسے خطوں میں دلچسپی لیتی ہیں جہاں قدرتی وسائل موجود ہوں، اور بلوچستان اسی لحاظ سے ان کی توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔ تاہم، بلوچ قومی تحریک اپنے قیام اور جدوجہد کے طریقہ کار میں اس قدر منظم اور پائیدار ہے کہ یہ عالمی طاقتوں کے لیے بھی قابلِ قبول پہلو رکھتی ہے۔
جنرل اسلم بلوچ کی تعلیمات نے آج تحریک کے مطالبات میں واضح سیاسی اور اقتصادی حقوق، انسانی حقوق کی حفاظت، اور مقامی وسائل کی شفاف تقسیم کو اجاگر کیا ہے۔ یہ عالمی طاقتوں کے لیے ایک مثبت اور قابلِ تعاون نقطہ نظر فراہم کرتا ہے: اگر وہ بلوچستان میں استحکام، امن، اور مقامی سماجی و اقتصادی ترقی کے لیے معاونت کریں تو یہ علاقائی امن اور سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول پیدا کر سکتا ہے۔ لیکن اس کے برعکس، بلوچ قوم کی مرضی و منشا کے بغیر بلوچستان میں سرمایہ کاری کرنا عالمی طاقتوں کی بڑی بے وقوفی ہے۔
پاکستان یہ ثابت کر چکا ہے کہ وہ بلوچوں کے بغیر ان وسائل کو بآسانی لوٹ کھسوٹ میں ناکام ہے، اور چین کی جانب سے کی گئی سرمایہ کاری اس حقیقت کی واضح مثال ہے، جس نے اربوں ڈالر ضائع کر دیے کیونکہ مقامی عوام کی حمایت اور شراکت کے بغیر منصوبے کامیاب نہیں ہو سکتے۔
مزید برآں، جنرل اسلم بلوچ کی تعلیمات کی روشنی میں تحریک کی قیادت نے یہ باور کرایا ہے کہ بلوچ عوام کے وسائل اور حقِ آزادی کی بحالی کسی غیر قانونی طریقے سے نہیں بلکہ منظم جدوجہد اور مزاحمتی حکمت عملی کے ذریعے ہونی چاہیے۔ یہ رویہ عالمی طاقتوں کے لیے ایک قابلِ قبول تصور ہونا چاہیے کیونکہ یہ خطے میں غیر مستحکم حالات کے خطرے کو کم کرتا ہے۔
لہٰذا، آج کی بلوچ قومی تحریک آزادی ایک تاریخی جدوجہد کے ساتھ ساتھ عالمی سیاست میں بھی ایک قابلِ غور ماڈل پیش کر رہی ہے، جہاں مقامی حقوق اور عالمی مفادات کے درمیان توازن پیدا کیا جا سکتا ہے۔ یہ وہ پہلو ہے جو اس تحریک کو عالمی طاقتوں کے لیے قابل قبول اور سرمایہ کاری کے لحاظ سے دلچسپ بناتا ہے، بشرطیکہ وہ بلوچ عوام کی حمایت اور ان کی مرضی کو نظر انداز نہ کریں۔
بقول جنرل اسلم بلوچ کے یہاں (بلوچستان) میں اگر کوئی (قبضہ گیر، سرمایہ کار) آئے گا تو وہ ہماری مرضی کے بغیر کچھ نہیں کر سکتا، کوئی زور لگائے گا تو اسے طاقت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔



















































