بلوچ خواتین کی جبری گمشدگیوں کے خلاف دھرنا جاری، سی پیک شاہراہ بدستور بند

3

تربت سی پیک شاہراہ دوسرے روز بھی بند، ایک ہی خاندان کے چار افراد کی جبری گمشدگی کے خلاف اہلِ خانہ کا احتجاجی دھرنا جاری ہے۔

بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے کرکی تجابان کے رہائشی ایک ہی خاندان کے دو خواتین سمیت چار افراد کی جبری گمشدگی کے خلاف سی پیک شاہراہ پر کرکی تجابان اور ہیرونک کے مقام پر احتجاجی دھرنا دوسرے روز بھی جاری رہا۔

دھرنے کے باعث تربت، کوئٹہ، پنجگور، آواران، کولواہ اور ہوشاپ کے درمیان دو طرفہ ٹریفک معطل ہوگئی، جس سے گاڑیوں کی طویل قطاریں لگ گئیں۔

دھرنا دینے والے اہلِ خانہ کے مطابق ان کے خاندان کے چار افراد کو پاکستانی فورسز نے گزشتہ دنوں حب چوکی و کیچ سے جبری طور پر لاپتہ کیا، جہاں وہ رہائش پذیر تھے۔

پاکستانی فورسز کے ہاتھوں حراست کے بعد جبری گمشدگی کا نشانہ بننے والوں میں آٹھ ماہ کی حاملہ 27 سالہ ہانی بنت دل جان، 17 سالہ حیرالنساء بنت عبدالواحد، 18 سالہ مجاہد ولد دل جان اور 18 سالہ فرید ولد اعجاز شامل ہیں۔

اس دوران مظاہرین سے مذاکرات کے لیے اسسٹنٹ کمشنر تربت کی سربراہی میں ایک مذاکراتی ٹیم رات گئے دھرنا گاہ پہنچی، تاہم طویل مذاکرات کے باوجود کوئی پیش رفت نہ ہو سکی، جس کے باعث سی پیک شاہراہ پر ٹریفک دوسرے روز بھی معطل رہی۔

لواحقین کے مطابق مذکورہ افراد کو حب چوکی کے علاقے دارو ہوٹل کے مقام سے پاکستانی فورسز اور خفیہ اداروں نے حراست میں لے کر اپنے ہمراہ لے گئے تھے، جس کے بعد سے انہیں منظرِ عام پر نہیں لایا گیا۔

لواحقین کا مطالبہ ہے کہ ان کے لاپتہ افراد کو فوری طور پر منظرِ عام پر لا کر بازیاب کیا جائے، بصورتِ دیگر ان کا احتجاجی دھرنا جاری رہے گا۔

بلوچستان میں خواتین کی جبری گمشدگیوں کے بھڑتے واقعات اور تربت دھرنا دینے والے لواحقین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے بی وائی سی کی جانب سے پانچ روزہ احتجاجی مہم بھی جاری ہے۔

تنظیم نے اعلان کیا ہے کہ وہ بلوچستان میں خواتین کی جبری گمشدگیوں کے خلاف پانچ روزہ احتجاجی مہم چلائی گی، تنظیم نے انسانی حقوق کے اداروں سے اپیل کی ہے کہ وہ بلوچستان میں جاری جبری گمشدگیوں کا نوٹس لیتے ہوئے لاپتہ افراد کی بازیابی میں کردار ادا کریں۔