وطن زادہ ریحان؛ بلوچستان کا امر کردار
تحریر: کمال جلالی
دی بلوچستان پوسٹ
اگر کوئی گھر میں پھول اُگاتا ہے تو وہ انسان اس کے لیے بہت محنت
کرتا ہے۔ ہر صبح اسے پانی دیتا ہے اور بے صبری سے انتظار کرتا ہے کہ کب یہ پھول بڑا ہوگا۔ جب پھول بڑا ہوکر اپنی خوبصورتی سے منظر کو معطر کردیتا ہے، تو اُس شخص کو اس پھول سے انسیت ہو جاتی ہے۔
جب کوئی دوسرا شخص یا عزیر اس پھول کو دیکھتا تو وہ اسے ایک سا پھول سمجھتا ہے، پھول اگانے کے پیچھے کی محبت، چاہت، راحت اور محنت اس شخص کی نظر سے چھپی ہوئی ہے کیونکہ اس شخص کو محض ایک پھول نظر آتا ہے اور جب وہ اسے توڑتا ہے یا نقصان پہنچاتا ہے، تو اُگانے والے کے دل پر چھوٹ پڑتی ہے۔ اُس کے دل میں ایک درد اٹھتا ہے کیونکہ اس کی محنت اور محبت کو چند لمحوں میں روند دیتا ہے، جس سے دل ایک خلش رہتی ہے ۔
جنگ زدہ بلوچستان میں آزادی کے انمول خواب کو حاصل کرنے کے لئے بلوچ ماؤں نے اپنے لخت جگر، پھول جیسے بیٹوں کو بلوچستان کی خاطر قربان کیے ہے۔ لمہ یاسمین ان ماؤں میں سے ایک ہے، جنہوں نے ریحان جان کو آزادی کا پرچم پہناکر بلوچستان کی قومی تحریک کے سپرد کردیا۔ لمہ یاسمین نے اپنے عزیز ترین لخت جگر کو قربان کرنے میں اپنے بیٹھے کا ساتھ دینے کا عظیم فیصلہ لیا کیونکہ صرف عظیم مائیں ہی ایسے فیصلہ پر قائم رہ کر سرخرو ہونے کا اعزاز پاتے ہیں، اور اس عظیم ماں کے بہادر بیٹے نے شعوری پختگی، ہمت، حوصلے اور آزادی کے جذبے سے لمہ یاسمین کا سر فخر سے بلند رکھا۔
جب لمہ جان نے وطن زادے ریحان کو جنم دیا، تب مقبوضہ بلوچستان میں لوگ غلامی کی طویل تاریک راتوں سے نبردآزما تھا ۔ پاکستان اپنے قبضے کو مضبوط کرنے میں مگن تھا اور بلوچستان کے صرف کچھ فکری محافظ ہی قومی آزادی کے شمع کا جلائے ہوئے تھے اور ان میں ایک قومی بیرک دار ریحان کا عظیم والد استاد اسلم تھا۔
وطن زادے ریحان جان کے بہادر والد، شہیدِ وطن استاد اسلم جان اور لمہ یاسمین نے نہ صرف جان و مال کی قربانیاں نہیں دیں، بلکہ اپنے جذبات، خواہشات، چاہت اور راحت بھی راہ جہد آجوئی کے راستے میں قربان کردیے۔
ریحان جان جیسے پھول نے آزادی، قوم، اپنی پہچان اور اپنی آباؤ اجداد کی زمین بلوچستان کے لیے قربانی دی ہے۔ استاد اسلم کا نام قربانی کی علامت ہے، جس نے اس زمین کے لیے بے شمار قربانیاں دی ہیں۔ ریحان جان نے اس عظیم والد کے راہ پر خاموشی سے چلنا پسند کیا اور صرف استاد اسلم کا فرزند کہلانا پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنی بھی ایک راہ چنی اور فدائی درویش کے نقش قدم پر چل کر جنگ آزادی کے راہ میں خود کو فنا کرکے دوسرے کے لئے ایک راستہ تشکیل دینے میں اپنا عظیم کردار ادا کیا۔
انیس سو چہتر میں بلوچ مزاحمت کار مجید لانگو (اول) نے کوئٹہ میں پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا لیکن حملے سے کچھ دیر پہلے ہی ہینڈ گرینیڈ ہاتھ میں پھٹ گیا تاہم مجید لانگو نے قومی کی راہ میں خود کو فنا کرکے آنے والے نسلوں کے لئے مزاحمت کرنے کی ایک نئی راستے کی تشکیل کی۔
دو ہزار دس کو مجید اول کی تقلید میں، مجید لانگو (ثانی) نے اپنے بھائی کے راستے پر چلتے ہوئے کوئٹہ شہر میں دشمن فوج کے جھڑپ میں شہید ہوکر امر ہوئے۔ شہید مجید (ثانی) بلوچ لبریشن آرمی کا ایک اہم شہری گوریلا جنگجو تھا، جس نے مستونگ، کوئٹہ، قلات اور حب چوکی میں کئی اہم مشن سر انجام دے کر شہری گوریلا جنگ کو نئی جہت سے متعارف کیا۔
مجید لانگو (ثانی) کی شہادت کے بعد استاد اسلم نے مجید بریگیڈ یونٹ بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس یونٹ کے پہلے فدائی کے لیے وطن زادہ درویش کو تیار کیا گیا۔ تنظیم نے پاکستانی ڈیتھ اسکواڈ کے اہم کارندہ شفیق مینگل کو نشانہ بنانے کا ٹارگٹ دیا۔
دو ہزار گیارہ کو کوئٹہ میں شہید فدائی درویش نے شفیق مینگل کے اڈے پر فدائی حملہ کیا اور اپنے مشن میں کامیاب رہا۔ اس حملے میں شفیق مینگل کے کئی اہم ساتھی مارے گئے۔
اسی تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے دو ہزار اٹھارہ کو استاد اسلم کے ریحان نے خود کو وطن کی آزادی کی راہ میں قربان کرنے کا فیصلہ کیا اور “بلوچ فدائی” بننے کا عزم کیا۔ یہ فیصلہ استاد اسلم کا نہیں بلکہ ریحان جان کا تھا، جو اپنے فیصلے پر پُر جوش اور پُر ہمت تھا۔
استاد اسلم اور لمہ یاسمین کی تربیت نے ریحان جان کو قوم کا بیٹا بننے کا جذبہ ءُ حوصلہ دیا اور اس کی روح کو پاکیزگی اور ایمانداری عطا کی، جس نے بلوچ جنگ کے رخ کو بدلنے میں اہم کردار ادا کیا۔
وطن زادہ ریحان جانتا تھا کہ یہ ایسا راستہ ہے جہاں کوئی واپسی نہیں ہے۔ وہ جانتا تھا کہ وہ خود کو اس راہ میں فنا کرے گا، لیکن اس کی قربانی مجید بریگڈ کو نئی روح بخشے گے۔ اسے یقین تھا کہ بلوچ قوم کے دلوں میں اس کی جزبہ قربانی ہمیشہ موجود رہے گی اور بلوچ جنگ آزادی میں نئی منزلیں طے کرے گا۔
ریحان کے آخری الفاظ تھے کہ میرے فدائی عمل کے بعد بلوچ قوم کی جنگ کو کوئی طاقت نہیں روک سکے گی اور واقعی، ریحان جان کے فدائی عمل کے بعد دنیا کو تسلیم کرنا پڑا کہ بلوچ گوریلا جنگ شدت اختیار کر چکی ہے اور جنگ کو اس پیمانے پر لے جانے کے لئے تیار ہیں کہ پاکستان کے لئے بلوچستان میں رہنا فائدے سے زیادہ نقصان کا سبب ہوگا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔