کوئٹہ: بس میں دو گارڈز، بلوچستان میں پبلک ٹرانسپورٹ کو حفاظتی اقدامات کی ہدایت

77

بلوچستان حکومت نے مسافر بسوں پر حملوں اور فورسز اہلکاروں پر حملوں میں اضافے کے بعد پنجاب اور دوسرے صوبوں کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ کے سکیورٹی اقدامات سخت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

محکمہ داخلہ و قبائلی امور بلوچستان نے 15 جولائی کو تمام کمشنرز، ڈپٹی کمشنرز اور محکمہ ٹرانسپورٹ کو ایک مراسلے کے ذریعے ہدایت جاری کی ہے کہ پنجاب سمیت دیگر صوبوں کو جانے والی بسوں میں دو سکیورٹی گارڈ، سی سی ٹی وی کیمرے، ٹریکر اور پینک الارم بٹن کی تنصیب کو یقینی بنائی جائے۔

ذرائع کے مطابق یہ فیصلہ حالیہ قلات میں بلوچ لبریشن آرمی کی جانب سے پاکستانی فورسز کے اہلکاروں اور 10 جولائی کو ژوب میں این 70 شاہراہ پر پنجاب سے تعلق رکھنے والے پاکستانی خفیہ اداروں کے نو اہلکاروں کو ہلاک کرنے کے بعد لیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ بدھ کے روز بلوچ لبریشن آرمی کے خصوصی دستے ‘فتح اسکواڈ’ نے انٹیلی جنس کی بنیاد پر کی جانے والی کارروائی کے دوران پاکستانی فوج کے اہلکاروں کو لے جانے والی ایک بس پر شدید نوعیت کا حملہ کیا، جس کے نتیجے میں 27 اہلکار ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے۔

ٹرانسپورٹرز نے حکومتی فیصلوں کو ناقابل عمل قرار دیا ہے۔ بلوچستان کی سب سے بڑی ٹرانسپورٹ کمپنی کے مالک حاجی دولت لہڑی کا کہنا ہے کہ ’سکیورٹی ریاست کی ذمہ داری ہے حکومت اپنی ذمہ دار ی پوری کرنے کی بجائے بوجھ ٹرانسپورٹرز پر ڈال رہی ہے۔ بسوں میں دو سکیورٹی گارڈ تعینات کیے بھی جائیں تو وہ درجنوں حملہ آوروں کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔

واضح رہے کہ بلوچستان میں حالیہ حملوں کی نوعیت اور شدت سے واضح ہے کہ پاکستانی فوج کے لیے بالخصوص اہم شاہراہیں غیر محفوظ اور بلوچ آزادی پسندوں کے کارروائی کا مرکزی میدان بن چکی ہیں۔