بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مرکزی رہنماء ڈاکٹر صبیحہ بلوچ نے ایک وڈیو بیان میں کہا ہے کہ آج ہمارے ساتھی ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، صبغت اللہ شاہ جی، بیبگر بلوچ، بیبو، گل زادی اور ماما غفار بلوچ کو انسدادِ دہشت گردی عدالت (ATC) میں پیش کیا گیا۔
انہوں نے کہاکہ اس سے قبل جب انہیں 10 روزہ ریمانڈ پر جیل منتقل کیا گیا تھا، تب بھی انہیں ان کے وکلا، خاندان یا ساتھیوں سے ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی، حالانکہ عدالت نے ملاقات کی اجازت دی تھی۔ آج جب دوبارہ انہیں عدالت میں پیش کیا گیا تو ججوں نے گزشتہ ریمانڈ کے دوران کیس میں پیش رفت کے بارے میں کوئی سوال تک نہیں کیا۔ ایک بار پھر بغیر کسی جائزے کے، مزید دس دن کا ریمانڈ دے دیا گیا، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ عدلیہ اور عدالتی نظام مکمل طور پر انصاف فراہم کرنے میں ناکام ہو چکا ہے۔
انہوں نے کہاکہ یہ ادارے جو خود کو انصاف کا نمائندہ کہتے ہیں، حقیقت میں انصاف کے نظام کو برباد کر رہے ہیں۔ جنہیں انصاف فراہم کرنے کے لیے بنایا گیا تھا، وہ آج مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں۔ ان ججوں میں نہ تو دیانتداری باقی رہی ہے اور نہ ہی انصاف کا جذبہ چاہے وہ خوف کے باعث ہو یا کسی انعام کے لالچ میں۔
ڈاکٹر صبیحہ بلوچ نے کہاکہ پاکستان کا عدالتی نظام مکمل طور پر زمین بوس ہو چکا ہے اور اس کی جگہ ناانصافی کا راج قائم ہو چکا ہے۔
انہوں نے کہاکہ ہم نے ہمیشہ واضح کیا ہے کہ ہماری جدوجہد انصاف کے نفاذ کے لیے ہے۔ ہم نے مطالبہ کیا کہ لاپتہ افراد کو عدالتوں میں پیش کیا جائے۔ جو کچھ ریاست بلوچ عوام کے ساتھ کر رہی ہے، کم از کم وہ قانونی دائرے میں تو لایا جائے۔ لیکن اس کے برعکس، انصاف کا نظام ہی ہمارے خلاف جبر کے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔
مزید کہاکہ یہ صرف ہمارے ساتھ ناانصافی نہیں، بلکہ پورے پاکستانی عدالتی نظام کے لیے ایک المیہ ہے۔
ہم سب سے اپیل کرتے ہیں کہ اس ناانصافی کے خلاف ہمارے ساتھ کھڑے ہوں۔ اگر یہ ظالمانہ نظام یونہی چلتا رہا تو جلد یا بدیر یہ ہر ایک کو متاثر کرے گا۔