بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ترجمان میجر گہرام بلوچ نے میڈیا کو جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ قابض پاکستانی فوج اور خفیہ اداروں کی زیر سرپرستی کھٹ پتلی وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی کی سربراہی میں قائم نجی ملیشیا ”بگٹی امن فورس“ کے کارندوں کی ایک بڑے لشکر نے 6 جون کو کوہ جاندر رکھنی، بارکھان کے پہاڑی سلسلے میں بلوچستان لبریشن فرنٹ کی گشتی ٹیم کے ایک کیمپ پر صبح سات بجے کے لگ بھگ حملہ کیا۔ سرمچاروں نے فوری طور پر دفاعی حکمت عملی اختیار کی اور تقریباً تین گھنٹوں پر مشتمل ایک طویل تصادم میں دشمن کی پیش قدمی اور گھیراؤ کی کوششوں کو ناکام بناتے ہوئے بحفاظت نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔ جبکہ اس لڑائی میں ڈیتھ اسکواڈ کے دو اہلکاروں کو ہلاک کردیا۔
انہوں نے کہا کہ مگر جنگ محض اس ایک مرحلے اور تصادم تک محدود نہ رہی بلکہ دشمن سرمچاروں کا پیچھا کرنے اور ان کے نکلنے کے راستوں کو آگے سے روکنے کی حکمت عملی اختیار کیا ہوا تھا۔ اس تصادم کی جگہ سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر دشمن کی کمک کیلئے آئے ہوئے قابض پاکستانی فوج کے تازہ دستوں سے سرمچاروں کا سامنا ہوا جس کے نتیجے میں سرمچاروں اور دشمن کے درمیان ایک نئی اور نہایت شدید جھڑپ شروع ہوئی جو سات گھنٹے جاری رہا۔ اس طویل رزم میں بلوچستان لبریشن فرنٹ کے چار سرمچار جام شہادت نوش کرکے تاریخ کے صفحات میں امر ہوگئے جبکہ قابض پاکستانی فوج کے دو اہلکار ہلاک اور متعدد شدید زخمی ہوئے۔
ترجمان نے کہا کہ کوہ جاندر، رکھنی میں قابض فوج کے ساتھ جھڑپ میں شہید ہونے والا ایک سرمچار رسان قادر عرف ریحان ولد قادر بخش سکنہ ڈنسر لباچ، آواران ہے۔ شہید رسان قادر بلوچ اپریل 2023 میں بی ایل ایف میں شامل ہوا تھا۔ آغاز میں اسے تنظیم کے شہری نیٹ ورک میں انٹیلیجنس ونگ میں ذمہ داری دی گئی۔ وہ تنظیم کاری میں تجربہ کار ایک تعلیم یافتہ سرمچار تھا وہ شہری نیٹ ورک میں اپنی ذمہ داریاں احسن طریقہ سے نبھاتا رہا۔ دشمن کی نظر میں آنے کے بعد تنظیم نے فروری 2025 میں اُسے بارکھان محاذ پر منتقل کر دیا، جہاں اس نے قلیل مدت میں عسکری امور، گوریلا جنگی فنون، اور محاذی نظم و ضبط میں غیرمعمولی صلاحیتوں کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ بارکھان میں دوسرا شہید سرمچار مصطفی نور عرف زبیرجان ولد نورجان سکنہ تسپ، پنجگور ہے۔ وہ قومی آزادی کی اس جنگ میں گزشتہ ڈھائی برس سے بی ایل ایف سے وابستہ رہے۔ وہ شال اور پنجگور کے شہری گوریلا سیلز میں سرگرم عمل رہا اور فکری نشستوں اور عوامی بیداری کے انقلابی پروگراموں کے نمایاں کردار بنے۔ تنظیم نے ان کے فکری تربیت اور عملی قابلیت کو دیکھتے ہوئے بارکھان کے حساس مشن پر اسے روانہ کیا۔ جہاں کوہ جاندر جھڑپ میں وہ شہادت کے عظیم رتبے پر فائز ہوئے۔
ترجمان نے کہا کہ تیسرا شہید سرمچار سمیع اللہ عرف میران ولد نور محمدسکنہ ملائی بازار، تربت ہے وہ مارچ 2024 میں بلوچستان لبریشن فرنٹ میں شامل ہوئے۔ اسے بھی ابتداء میں تربت میں تنظیم کی شہری نیٹ ورک کے خفیہ نیٹ ورک سے منسلک کیا گیا جہاں انہوں نے متعدد انتہائی نازک معلومات فراہم کر کے دشمن کے کئی عزائم کو ناکام بنایا۔ بعد ازاں اسے بارکھان کے کوہستانی کیمپ میں تعینات کیا گیا، جہاں انہوں نے عسکری محاذ پر جرأت و دلیری کے ایسے نقوش ثبت کیے جو آزادی پسند نسل کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ چوتھا شہید سرمچار شاہ زیب عرف شاشان ولد امیر بخش سکنہ گوْنی، گریشگ ہے۔ وہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں شعبہ زولوجی سے پڑھا ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ ساتھی تھا۔ اس نے اگست 2023 میں بی ایل ایف میں شمولیت اختیار کیا تھا۔ تعلیمی، تحقیقی اور فکری کاموں میں اس کی قابلیت کے باعث تنظیم نے اسے میڈیا ونگ کا حصہ بنایا۔ تاہم نومبر 2024 میں اسے بارکھان کیمپ منتقل کیا گیا جہاں وہ کوہ جاندر جنگ میں شہادت کے عظیم رتبے پر فائز ہوگیا۔
ترجمان نے کہا کہ کوہ جاندر، بارکھان کے یہ عظیم شہداء شہید سدو مری کے نقش قدم پر چلتے ہوئے قبائلیت و علاقائیت سے بالاتر بلوچیت کے جذبہ اور پہچان کو نئی توانائی فراہم کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان لبریشن فرنٹ کوہ جاندر جھڑپ میں شہید سرمچاروں کو زبردست خراج عقیدت پیش کرتی ہے اور اس عزم کا اعادہ کرتی ہے کہ بلوچستان کی آزادی کے حصول تک شہداء کے مشن کو جاری رکھا جائے گا۔